!جمہوریت پر بھی اعتراض

   

Ferty9 Clinic

رات تاریک ، راہ ناہموار
شمعِ غم کو ہوا نہ دے جانا

ملک بھر میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ جب سے مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے ملک کے اہم دستوری اور جمہوری اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مختلف گوشوں سے حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے ملک کی جمہوریت کو داغدار کرنے اور کمزور کرنے کے الزام بھی عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ نریندر مودی حکومت کسی بھی مسئلہ میں اپوزیشن کی تنقیدوں کا جواب دینے کی بجائے اپنے انداز میں اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں مگن اور مصروف رہتی ہے ۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں حکومت کے کام کاج پر احتجاج بھی منظم ہوئے ہیں تاہم ایک بات اب تک یہ محسوس کی گئی تھی کہ ملک کی جمہوریت کی ہر کوئی دہائی دیتا ہے اور اس کے تحفظ کی بات کرتا ہے حالانکہ ان کا عمل جمہوریت کے خلاف اورمغائر ہوتا ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ نریندرمودی حکومت اور اس سے جڑے ہوئے افراد کو جمہوریت بھی پسند نہیں آ رہی ہے ۔ نیتی آیوگ ‘ جو نریندر مودی حکومت کی اختراع ہے ‘ کے سی ای او کو بھی شائد اب ملک کی جمہوریت کھٹکنے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ کہہ جاتے ہیں کہ ملک میں حد سے زیادہ جمہوریت ہے اسی لئے ملک میں اصلاحات کا آنا مشکل ترین امر ہے ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام جماعتوں کو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت ہی ہے جس نے کمزور ترین انسانوں کو ملک کا اعلی ترین اقتدار تک فراہم کیا ہوا ہے ۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت ہی ہے جس کی ساری دنیا میں اہمیت اور افادیت پائی جاتی ہے ۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت ہی ہے جس کے نتیجہ میں آج مرکز میں یا ملک کی تمام ریاستوں میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں قائم ہیں ۔ ملک بھر میں جو حکومتیں قائم ہیں وہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئی ہیں اور یہ عوام کی خدمت کیلئے ہی مختص ہوئی ہیں۔ حکومت کیلئے اصلاحات یا قانون سازی ہی ایک ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ملک کے عوام کا اطمینان اور ان کی رضا زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ ملک کے عوام کو جو مسائل اور مشکلات درپیش ہوتی ہیں ان کو دور کرنا اور عوام کو راحت پہونچانا عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے ۔
نیتی آیوگ کے سی ای او نے ملک میں جمہوریت کے تعلق سے جو اظہار خیال کیا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ ان کا اپنا ذاتی خیال ہو لیکن وہ نیتی آیوگ کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر ہیں اور انہیں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے بیانات سے حکومت کے منشاء پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہندوستان کے ہر اہم ترین ادارہ کے ذمہ داروں کی طرح نیتی آیوگ بھی حکومت کے تحت کام کرتا ہے ۔ یہ ادارہ ایسا ہے جو حکومت کی اسکیمات اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل آوری اور ان کی تکمیل میں اہم رول ادا کرتا ہے ۔ اگر اس جیسے اداروں کے سربراہ بھی ملک کی جمہوریت پرتنقیدیں کرنے لگیں تو ملک میں تاناشاہی جیسی صورتحال پیدا ہونے کے اندیشے تقویت پاسکتے ہیں۔ پہلے ہی یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ نریندر مودی حکومت اور اس کے ذمہ داران کی جانب سے عوامی مسائل پر بھی کسی کے مشورہ کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے ۔ عوام کی رائے کو اور ان کے جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ جو لوگ اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کی مخالفت کرتے ہیں انہیں دبانے اور مخالفانہ آوازوں کو ختم کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے ۔ مقدمات اور تحقیقاتی ایجنسیوں سے مخالفانہ آوازوں کو کچلا جا رہا ہے ۔ ایسے میںا گر حکومت کے ایک ذمہ دار ادارہ کے سی ای او کی جانب سے اس طرح کا بیان دیا جاتا ہے تو یہ انتہائی تشویشناک ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ جمہوریت کی بقاء سے متعلق ہے ۔
ہندوستان کے دستور نے ملک کے عوام کو اپنے حق کیلئے قانون اور دستور کے دائرہ میں کسی بھی سرکاری پالیسی کی مخالفت کرنے اور اپنا احتجاج درج کروانے کا حق دیا ہے ۔ اگر اس حق کو بھی نشانہ بنایا جانے لگے گا تو یہ دستور ہند کے دفعات کی خلاف ورزی ہوگی ۔ اس سے ملک کی جمہوریت کیلئے خطرات میں اضافہ ہوجائیگا ۔ پہلے ہی ہماری جمہوریت طاقت اور پیسے کے زور پر کھوکھلی کی جا رہی ہے ۔ اس صورتحال میں سی ای او نیتی آیوگ کا بیان انتہائی افسوسناک اور تشویشناک بھی کہا جاسکتا ہے اور اس کیلئے حکومت کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی نفی کی جانی چاہئے اور اس بیان سے جو اندیشے اور تشویش پیدا ہونے لگی ہے اس کا امکان مسترد کیا جانا چاہئے ۔