اَنا پرستی کہ رہتی ہے جن کی فطرت میں
ہمیشہ رہتے ہیں تنہا وہ اور رنجیدہ
آج ہندوستان نے اپنا 78 واں یوم آزادی منایا ۔ یہ ایک ایسا دن ہے جس کو ہندوستان ہمیشہ ہمیشہ جشن مناتا رہے گا ۔ یہ دن ہمیںانگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کا جشن منانے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ ہر ہندوستان پوری شان اور فخر کے ساتھ اپنے ملک کی آزادی کا جشن مناتا ہے اور خوشیوںاور مسرت کا اظہار کرتا ہے ۔ قومی پرچم لہرایا جاتا ہے ۔ حب الوطنی کے گیت بجائے جاتے ہیںاور کئی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ پرچم کشائی کی قیادت ہمارے ملک کے وزیر اعظم کرتے ہیں جو دارالحکومت دہلی میں تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے پرچم لہراتے ہیں۔ یہ روایت ہماری آن بان اور شان کو ظاہر کرتی ہے ۔ اسی آزادی کے بعد ہندوستان کو ایک جمہوری ملک بنانے کی سمت میں پہل کی گئی تھی اور ہمارے ملک کے مجاہدین آزادی اور معماروں نے ملک کو جمہوریت کا راستہ دیا تھا ۔ آج تک ہندوستان جمہوریت کے راستہ پر گامزن ہے تاہم کچھ واقعات ایسے پیش آ رہے ہیں جو جمہوری اقدار کو پامال کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ آج جب لال قلعہ کی فصیل سے پرچم لہرایا گیا تو قائد اپوزیشن راہول گاندھی بھی تقریب میں ایک دستوری عہدہ پر فائز شخص کی حیثیت سے مدعو تھے ۔ قائد ایوان کا جو عہدہ ہوتا ہے وہ وزیر اعظم کا ہوتا ہے اور اس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے اپنے قائد کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی ایک دستوری عہدہ ہے ۔ کابینی درجہ کا عہدہ ہے اور راہول گاندھی آج ملک کے قائد اپوزیشن ہیں۔ ایسے میں لال قلعہ کی فصیل پر پرچم کشائی تقریب کے موقع پر انہیں پانچویں صف میںنشست فراہم کرتے ہوئے ایک طرح سے جمہوری اصولوںاور اقدار کو پامال کیا گیا ہے ۔ جمہوری اصولوںاور دستوری عہدوں کا تقاضہ ہوتا ہے کہ عہدوں کے مرتبہ کے اعتبار سے نشستوں کا اہتمام کیا جائے ۔ یہ ہمیشہ کا پروٹوکول ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت سیاسی اختلاف رائے کو پیش نظر رکھتے ہوئے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ آج کی تقریب میں جن شخصیتوں کو اولین صفوں میں جگہ دی گئی ہے ان پر عوامی نمائندے کا مرتبہ برتر ہوتا ہے ۔
سیاسی اختلاف کو پیش نظر رکھتے ہوئے قائد اپوزیشن کو ان کا مناسب مقام نہیں دیا گیا اور نہ پروٹوکول کے مطابق نشست فراہم کی گئی ۔ پانچویں صف میں ان کے بیٹھنے کا انتظام تھا ۔ راہول گاندھی نے شخصی طورپر حالانکہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن ملک کے جمہوری اقدار کی پاسداری کی جانی چاہئے ۔ حکومت یقینی طورپر عوام کی نمائندہ حکومت ہے اور اسے سرکاری کام کاج کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کو بھی ملک کے عوام نے ہی جمہوری انداز میں اپنے ووٹ کے ذریعہ اس ایوان میں حکومت کے کام کاج پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔ حکومت کے کام کاج میں اگر کوئی کمی یا نقص رہ جائے تو اس کی نشاندہی کرنے کی ذمہ داری اپوزیشن کی ہے ۔ ایسے میں عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ہر ذمہ دار کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ ملک کیلئے بین الاقوامی فورمس میں مقابلہ کرتے ہوئے میڈلس حاصل کرنے والوں کو اولین صفوں میں جگہ دی گئی جس کا خیر مقدم ہے لیکن ان کے عوض ملک کے عوام کی نمائندگی کرنے والوں کو پس منظر میں نہیں ڈھکیلا جاسکتا ۔ ملک کے کئی وزراء کو اولین صفوں میں جگہ دی گئی جبکہ قائد اپوزیشن بھی دستوری ذمہ داری اور کابینی درجہ کے مطابق ان کے مساوی ہے بلکہ ان پر زیادہ ذمہ داری ہے ایسے میںاگر قائداپوزیشن کا احترام برقرار نہیں رکھا جاتاہے تو یہ باعث تشویش ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ قومی اہمیت کے حامل انتہائی اہم مواقع پر بھی سیاست کو ہی مقدم رکھا جا رہا ہے ۔
حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے ۔ یہ ہماری جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے ۔ یہی ہماری جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود سب قومی اہمیت کے مواقع پر ایک ساتھ جمع ہوتے ہیںلیکن سیاسی عناد کی تکمیل کیلئے اس طرح کے مواقع کا استعمال کرنا مناسب نہیں ہوسکتا ۔ یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے جو ہماری جمہوریت کی انفرادیت پر اثر انداز ہوسکتا ہے ۔ حکومت کو اس معاملے میں وضاحت کرنی چاہئے اور اگر یہ انتظامی سطح پر کی گئی غلطی ہے تو ایسا کرنے کے ذمہ دار افراد سے جواب طلب کیا جانا چاہئے اور ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔