جمہوریت کے چہرہ پر تیزابی حملہ

   

محمد ریاض احمد
ہمارے وطن جنت نشان ہندوستان میں ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اور اس بارے میں خود چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے (ایس اے بوبڈے) نے اعتراف کیا ہیکہ ملک فی الوقت مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت میں پچھلے 6 برسوں سے جو کچھ ہورہا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دینے والے مودی جی کی حکومت کا یہ حال ہیکہ اس میں بیٹیاں محفوظ ہیں اور نہ ہی ماؤں کے تحفظ کی کوئی گیارنٹی ہے۔ 9 ماہ کی شیرخوار سے لیکر 70 سال کی بوڑھی خواتین بھی اپنی عصمتوں سے محروم ہورہی ہیں۔ عصمت ریزی کے ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں ملزمین کی حیثیت سے بی جے پی قائدین کے نام آئے ہیں۔ اترپردیش کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کو کمسن لڑکی کی اجتماعی عصمت ریزی کا عدالت نے مرتکب قرار دیا یہ اور بات ہیکہ عدالت کے فیصلہ سے کئی ماہ قبل ہی بی جے پی نے بدنامی کا ٹوکرا اپنے سر نہ لینے سے متعلق سنگھ کی قدیم روایتوں کی پاسدادری کرتے ہوئے کلدیپ سنگھ کو پارٹی سے خارج کردیا۔ متاثرہ لڑکی پر کتنے جان لیوا حملے ہوئے اس کے غمزدہ باپ کو کس طرح قتل کیا گیا اور دو خالاؤں کو کیسے مارا گیا اس کے ایڈوکیٹ کو کس طرح معذور کیا گیا خود متاثرہ لڑکی کا کیا حال ہوا سارا ہندوستان بلکہ دنیا کا میڈیا اچھی طرح جانتا ہے تاہم مودی حکومت اور بی جے پی کا بھکت ہمارا میڈیا ایسے واقعات کو اس طرح نظرانداز کررہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی پہلی میعاد میں ملک کو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دیا اور دوسری میعاد آتے آتے اس نعرہ کو کچھ اس طرح تبدیل کیا ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس‘‘ لیکن اس نعرہ کی حقیقت پر ہم ہندوستانی بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ مودی جی بولتے بہت ہیں کرتے کچھ نہیں۔ ان کی مثال اس کاہل شوہر کی طرح ہے جو کہتا بہت ہے لیکن اپنی بیوی بچوں کیلئے کچھ کرتا نہیں اور پھر قوم کی خدمت کے بہانہ اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔

اب آپ ہی سوچئے جو شخص اپنی فیملی کی بہتری کیلئے کچھ کرنے سے قاصر رہا اس سے ملک و قوم کی بہتری کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ پچھلے 6 سال سے ملک میں جو کچھ ہوا اس بارے میں سب جانتے ہیں چاہے وہ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی ناانصافی ہو یا ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے کا معاملہ یا پھر طلباء برادری پر پولیس اور نقاب پوش دہشت گردوں کے حملے یا شہریت ترمیمی قانون سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے زبردستی اطلاق کا اعلان۔ ہندوستانی عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ اترپردیش میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے مظاہرین پر پولیس مظالم و فائرنگ (ان واقعات میں صرف اترپردیش میں 21 مسلم نوجوانوں نے جام شہادرت نوش کی)۔ مودی جی کی حکومت میں ہی ہم ہندوستانیوں نے کشمیر میں تباہی و بربادی کا سناٹا دیکھا۔ 5 اگست سے کشمیری عوام بہت پریشان ہیں۔ سی اے اے پر یو پی پولیس کی درندگی اور اس میں 21 نوجوانوں کی شہادت کے بعد ہولناک ویرانی بھی دیکھی۔ اس سے پہلے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں ناانصافی کا مشاہدہ بھی کیا۔ طلاق ثلاثہ پر حکومت کی مکاری اور کشمیر کے بارے میں آرٹیکل 370 کی منسوخی سے متعلق اس کی عیاری بھی دیکھی۔ 6 برسوں میں ہم ہندوستانیوں کو ہندوستان کی جوڑی نمبر ون کی دروغ گوئی کا بار بار تلخ تجربہ بھی ہوا۔ کسانوں کی آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے۔ پولیس اور فرقہ پرست درندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے نوجوانوں کے ماں باپ بھائی بہنوں کی چیخیں ان کی آہیں بھی سنی۔ حد تو یہ ہیکہ ہمارے ملک کے مستقبل یعنی طلبہ پر نقاب پوش غنڈوں کے حملوں کا بڑی بے بسی سے نظارہ کیا لیکن مودی اور امیت شاہ کی جھوٹ اور جملہ بازی کا سلسلہ جاری رہا۔ ہر وقت ہندوستانیوں سے جھوٹ بولا گیا۔ انہیں مذہب کی افیون کھلائی گئی۔ مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی اور ہندوستانی دستور و جمہوریت کے چہروں کو فرقہ واریت کے تیزاب میں ڈبودیا گیا اور آج ہر محب وطن ہندوستانی یہی محسوس کررہا ہیکہ اس کی وجہ یہ ہیکہ جے این یو میں نقاب پوش غنڈوں نے جو مبینہ طور پر اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے تعلق رکھتے تھے اتوار کی رات جے این یو کیمپس پر حملہ کردیا جن میں 34 طلبہ اور خاتون پروفیسرس شدید زخمی ہوئیں۔ صدر جے این یو اسٹوڈنٹ یونین آشی گھوش کے سر پر 16 ٹانکے لگانے پڑے۔ خاتون پروفیسرس پر اس قدر ہیبت طاری ہوگئی کہ وہ جے این یو واپس ہونے کے نام پر گھبرا رہی ہیں۔ زخمی طلبہ کی عیادت کیلئے بالی ووڈ فلمی اداکارہ دیپکاپڈکون بھی پہنچ گئیں۔ اس وقت جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار کی تقریر جاری تھی وہ 10 تا 15 منٹ وہاں خاموش کھڑی رہی اور میڈیا سے بات کئے بناء چلی گئیں۔ دیپکاپڈکون کی جے این یو طلبہ کو تائید نے ان فاشسٹ طاقتوں میں برہمی کی لہر دوڑادی جو خود کو قوم پرست قرار دیتے ہیں۔ ان فاشسٹوں اور بی جے پی کے اہم قائدین نے دپیکاپڈکون کی فلم ’’چھپاک‘‘ پر پابندی کے مطالبات بھی کئے۔ حکومت نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے وزارت فروغ انسانی وسائل کے اسکیل انڈیا پروگرام سے دپیکاپڈکون کے اشتہار کو نکالدیا۔ اس اقدام کے ذریعہ مودی حکومت نے یہ واضح کردیا کہ جو لوگ حکومت اور اس کے اقدامات کے خلاف آواز بلند کریں گے اور مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئیں گے انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ بہرحال دپیکاپڈکون کی فلم کے خلاف بی جے پی قائدین بالخصوص انٹرفیل (ان کے بارے میں یہ مشہور ہے) مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے عجیب و غریب باتیں کیں حالانکہ انہیں دپیکاپڈکون کی انسانیت نوازی اور جرأتمندی کیلئے ستائش کرنی چاہئے تھی۔ سمرتی ایرانی کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اقتدار کی راہداریوں میں پہنچنے کے باوجود ان کا قد حقیقت میں دیپکاپڈکون سے بہت چھوٹا ہے وہ کسی بھی طرح دیپکا کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ہاں۔ ہم آپ کو یہ بتا رہے تھے کہ بی جے پی لیڈروں کی لاکھ مخالفت کے باوجود فلم چھپاک نے نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر بھی شاندار بزنس کیا۔ ملک کی کئی ریاستوں بشمول چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اس فلم کو تفریحی ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا۔ آپ کو بتادیں فلم چھپاک تیزاب حملہ کا شکار لکشمی اگروال کی زندگی پر بنائی گئی فلم ہے اور حقوق انسانی کے جہدکار و شاعر اور نغمہ نگار گلزار اور راکھی گلزار کی بیٹی میگھنا گلزار اس فلم کی ڈائرکٹر ہیں۔ میگھنا گلزار اپنے والد کی طرح نڈر اور فرقہ پرستوں کے خلاف ڈٹ جانے والی خاتون ہیں۔ انہوں نے ایک رائٹر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز ٹائمز آف انڈیا میں فری لانس جرنلسٹ کی حیثیت سے کیا۔ انہیں فلم راضی کیلئے بہترین ڈائرکٹر کا فلم فیر ایوارڈ بھی حاصل ہوچکا ہے۔ جہاں تک لکشمی اگروال کا سوال ہے انہیں نعیم خاں نامی 32 سالہ شخص نے جسے ہم ناکام عاشق کہہ سکتے ہیں شادی سے انکار پر چہرہ پر تیزاب ڈال دیا تھا۔ اس لڑکی نے Acid Attack کے بعد بدصورت اور ڈروانی شکل کی ہوجانے کے باوجود اپنا حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی جدوجہد کے ذریعہ یہ بتادیا کہ جدوجہد زندگی کا دوسرا نام ہے۔ Acid Survivors Foundation India کے مطابق ہمارے ملک میں سالانہ اوسطاً 500-1000 لڑکیوں اور خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات پیش آتے ہیں اور اس طرح کے حملوں میں اکثر حملہ آور یہ کہتے ہوئے ’’میری نہیں ہوسکتی تو کسی کی بھی کہہ تیزاب انڈیل دیتے ہیں، ایسے واقعات میں 18 سے 28 سال عمر کی لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں اور 78.8 فیصد متاثرین بصارت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ویسے بھی مودی حکومت میں خواتین کا برا حال ہے کئی ایک رپورٹس میں ہندوستان کو خواتین کیلئے دنیا کے سرفہرست خطرناک ممالک میں رکھا گیا ہے۔ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہمارے ملک کی عدالت عظمیٰ نے خواتین پر بڑھتے تیزابی حملوں کے پیش نظر 2013ء میں تیزاب کی فروخت پر پابندی عائد کردی تھی لیکن اب بھی سارے ملک میں سلفیورک ایسڈ اور ہائیڈروکلورک ایسڈ بڑے پیمانے پر فروخت ہوتی ہے۔ ہم بات کررہے تھے کہ لکشمی اگروال کی تو آپ کو بتادیں کہ اس پر 2005ء میں حملہ کیا گیا لیکن اس نے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھا اور تیزابی حملوں کے خلاف تحریک شروع کی۔ اس کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے اسے یونیسیف اور وزارت بہبود خواتین و اطفال کی جانب سے 2014ء میں Inlernadonal Women of Courage ایوارڈ سے نوازا گیا۔ امریکہ کی سابق خاتون اول مشل اوباما کے ہاتھوں یہ ایوارڈ انہیں پیش کیا گیا۔ بہرحال بی جے پی قائدین اور اس کی قبیل کی دیگر تنظیموں کی لاکھ مخالفت کے باوجود جس طرح دیپکاپڈکون کی فلم چھپاک نے شاندار کاروبار کیا اسی طرح بیرونی دنیا میںہندوستان کی شبیہ متاثرکرنے سے متعلق فرقہ پرست درندوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ملک کے عوام نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر پر غیرمعمولی اتحاد کا مظاہرہ کیا اور بتادیا کہ ہندوستان صرف اور صرف ان ہندوستانیوں کا ہے جو انسانیت اور ہندوستانیت میں یقین رکھتے ہیں۔ گنگاجمنی تہذیب اور وحدت میں کثرت والے اس ملک میں نفرت اور تشدد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہاں دہلی پولیس اور یو پی پولیس کے ساتھ ساتھ جے این یو کے وائس چانسلر کو بھی یہ جان لینا چاہئے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر ناچنے والوں کا حشر بھی ان انگریزوں جیسا ہوگا جنہیں ہندوستانی مجاہدین آزادی کی قیادت میں ہندوستانی عوام نے ملک سے بھگایا تھا۔ دوسری طرف مودی جی کو یہ جان لینا چاہئے کہ اقتدار ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ دستور اور جمہوریت پر حملوں کو ہندوستانی قوم کبھی برداشت نہیں کرے گی۔ نفرت کی سوداگری کسی کے کام آئی ہے نہ آئے گی اور جس نے بھی آمرانہ حرکات کی وہ تاریخ کے صفحات میں کہیں دفن ہوکر رہ گیا اور تازیانہ عبرت بن گیا۔ ملک میں نفرت کی نہیں محبت کی ضرورت ہے ۔ نقاب پوش دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، فرقہ پرستی کی درندگی سے ہندوستان کو بچانا آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com