جمہوری حکومتیں نشانہ پر ؟

   

سوال یہ نہیں ‘ درپیش مسئلے ہیں بہت
سوال یہ ہے ‘ مجھے ان کی آگہی کیوں ہے ؟
اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والی حکومتوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کے دوران مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کی کوشش شروع کردی ہے جس کے ذریعہ وزیر اعظم ‘ وزراء اور ریاستی چیف منسٹرس کو برخواست کرنے کی گنجائش فراہم کی جا رہی ہے ۔ دستوری عہدوں پر فائز جو افراد 30 دن سے زائد جیل میں رہیں اور جن جرائم کی وجہ سے پانچ سال تک کی قید ہوسکتی ہے انہیں عہدوں سے ہٹایا جاسکتا ہے ۔ مرکزی حکومت پر پہلے ہی سے یہ الزامات عائد ہوتے ہیں کہ وہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کا بیجا اور غلط استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزراء اور چیف منسٹرس کو بھی نشانہ بنا رہی ہے ۔ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیاں مرکز کے ہاتھ میں ہیں اور وہ ان کا استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کے وجود کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہی ہے ۔ اپوزیشن قائدین اور حد تو یہ ہے کہ چیف منسٹروں کو بھی مقدمات میں ماخود کرتے ہوئے جیلوں کو بھیجا جا رہا ہے ۔ اس سلسلہ میں دو مثالیں موجود ہیں۔ ایک مثال میں چیف منسٹر جھارکھنڈ ہیمنت سورین کو اور دوسری مثال میں چیف منسٹر دہلی کی حیثیت سے اروند کجریوال کو گرفتار کرتے ہوئے جیل بھیج دیا گیا ہے ۔ ان دونوں ہی معاملات میں چیف منسٹروں کو حالانکہ ضمانت حاصل ہو گئی تاہم یہ حقیقت ہے کہ انہیں کئی دن تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا ہے ۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں ہی چیف منسٹرس کی ضمانت کے بعد ان کے مقدمات میں تاحال کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دی ہے ۔ اس سے یہ شبہات ضرور تقویت پاتے ہیں کہ سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کرتے ہوئے جیلوں کو بھیجا جاسکتا ہے اور ان کی کرسی اور عہدہ کو برخواست کرتے ہوئے انصاف رسانی کے عمل کو تاخیر کا شکار کیا جاسکتا ہے ۔ تحقیقات کے نام پر وقت ضائع کیا جاسکتا ہے تاکہ جن قائدین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کو الزامات سے بری ہونے کی صورت میں عہدہ پر بحالی سے روکا جاسکے ۔ کئی مقدمات ملک میں ایسے ہیں جو سنگین الزامات کے تحت درج کئے گئے ہیں لیکن طویل قانونی کشاکش کے بعد انہیں عدالتوں میں ثابت نہیں کیا جاسکا ہے ۔
کہا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت نے اس طرح کی قانون سازی کا فیصلہ اسی وقت کرلیا تھا جب دہلی کے چیف منسٹر کی حیثیت سے گرفتاری کے بعد اروند کجریوال نے استعفی دینے سے انکار کردیا تھا ۔ انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے چیف منسٹر کا عہدہ برقرار رکھا تھا حالانکہ وہ ضمانت پر رہائی کے بعد اس عہدہ سے مستعفی ہوگئے تھے ۔ اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت اپوزیشن کو نشانہ بنانے کے منصوبوں پر یکے بعد دیگرے عمل کرتی جا رہی ہے اور ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کے ذریعہ اپوزیشن کی آواز کو خاموش کیا جاسکے ۔ اپوزیشن کے شبہات واجبی اس لئے بھی کہے جاسکتے ہیں کہ کئی معاملات میں مرکز پر تحقیقاتی ایجنسیوں کے بیجا استعمال کے الزامات عائد ہوئے ہیں اور مقدمات کے اندراج پر بعض مواقع پر عدالتوں نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سرزنش بھی کی تھی ۔ حکومت جن کو نشانہ بنانا چاہتی ہے انہیں برسوں سے جیلوں میں بند رکھا جا رہا ہے اور ضمانتیں تک ملنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ مقدمات کی سماعت اور پیشرفت بھی طوالت کا شکار ہے ۔ ایسے میں اب اگر نئے قوانین کو منظوری دی جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں سیاسی انتقام کے جذبہ کو فروغ دئے جانے کے شبہات پیدا ہونے لازمی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس طرح کی مجوزہ قانون سازی کو دستور کے مغائر قرار دیا ہے اور لوک سبھا میں اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے ہنگامی آرائی بھی کی ہے اور بل کے کاغذات کو پھاڑ دیا گیا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دستوری ترمیمی بل ہے ۔ اس کی ایوان میں منظوری کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے پاس نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ بل کو مانسون سشن کے اختتام سے عین قبل پیش کیا گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت بھی اس مسئلہ پر طویل مدتی منصوبہ رکھتی ہے ۔ حکومت کو یہ احساس بھی ہے کہ کم از کم اس کی جاریہ معیاد میں اس بل منظور نہیں ہوسکتا ۔ اس کے باوجود بل کی ایوان میں پیشکشی سے یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے توجہ ہٹانے کے منصوبہ سے شائد یہ بل پیش کردیا ہو ۔ حکومت چاہتی ہے کہ ملک بھر میں ووٹ چوری کے مسئلہ پر جو عوامی بحث شروع ہوگئی ہے اس سے توجہ ہٹائی جائے ۔