ہندوستان میں انتخابات ویسے تو انتخابی قواعد و قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کے ساتھ ہی پایہ تکمیل کو پہونچتے ہیں لیکن حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جن کے نتیجہ میں ساری جمہوریت ہی مذاق بن کر رہ گئی ہے ۔ جمہوری عمل پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ لوگ انتخابات کو محض طاقت اور پیسے کا کھیل سمجھنے لگے ہیں اور یہ سوچ حقیقت بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف صورتحال ہوگئی ہے ۔ خاص طور پر گذشتہ چند برسوں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کی شکایات عوام میں یقین کی حد تک پھیل گئی ہے ۔ کئی مواقع پر اس کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے ہیں تاہم حکومتوں کی جانب سے ان سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا ہے ۔ خاص طور پر مرکز کی مودی حکومت اور بی جے پی اقتدار والی ریاستوں نے ایسی شکایات کو مسترد کردیا ہے ۔ تاہم گذشتہ کچھ مواقع پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے غائب ہونے یا پھر ان میں الٹ پھیر کی شکایات عام ہوتی جا رہی ہیں۔ اب آسام میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ اقتدار اور طاقت کے بل پر جمہوری عمل کو یرغمال بنایا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کے رکن اسمبلی اور جاریہ انتخابات میں امیدوار کی گاڑی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین دستیاب ہوا ہے ۔ یہ کوئی اتفاق سے پیش آنے والا ایک آدھ واقعہ نہیں کہا جاسکتا ۔ اس سارے معاملے کو ملک کی جمہوریت سے کھلواڑ کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ معمولی واقعہ قرار دے کر اگر اس کو نظر انداز کردیا گیا یا درکار کارروائی نہیں کی گئی تو یہ ملک کی جمہوریت سے بھونڈا مذاق ہوگا اور عوام کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کی اہمیت گھٹانے کی کوشش ہوگی ۔ جس طرح ووٹ عوام کا اختیار ہے ویسے ہی ووٹوں کی حفاظت حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن الیکشن کمیشن حالیہ عرصہ میں بالکل ہی ناکارہ اور نا اہل ثابت ہوا ہے ۔ جمہوری عمل پر اثر انداز ہونے والے واقعات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ہوئے کمیشن اپنی افادیت اور غیر جانبداری پر بھی سوالات کا موقع فراہم کر رہا ہے ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مرکزی فوجی دستوں کو متعین کیا جاتا ہے ۔ تیاریوں کا وقفہ وقفہ سے جائزہ لیا جاتا ہے ۔ ہر طرح کی صورتحال کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ووٹنگ مشین بھی خود مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی گاڑی سے دستیاب ہوتی ہے تو پھر الیکشن کمیشن کا وجود ہی مشکوک ہوجاتا ہے ۔ عوام کے ووٹوں کے ساتھ اس سے بھونڈا مذاق اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔ جمہوری عمل کو اس سے زیادہ نقصان کچھ اور نہیں ہوسکتا ۔ ریاستی انتظامیہ کی جانب سے اور خود الیکشن کمیشن کی جانب سے واقعہ کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ انتخابی عملہ نے ایک خانگی گاڑی میں لفٹ لی تھی اور یہ گاڑی اتفاق سے بی جے پی لیڈر کی نکلی اور اتفاق سے یہ بی جے پی لیڈر ہی یہاں کے امیدوار بھی ہیں۔ یہ عذر در اصل عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تب بھی یہ الیکشن کمیشن کی مکمل نا اہلی کا ثبوت ہے ۔ کب کمیشن ووٹنگ مشینوں کی بحفاظت منتقلی کیلئے اقدامات نہیں کرسکتا تو ساری ریاست میں انتخابی عمل ہی مشکوک ہوکر رہ جائیگا ۔ یہ در اصل پیسے اور اقتدار کی طاقت کا بیجا استعمال ہے ۔ یہ در اصل اپنے ووٹرس کی رائے کو دبانے اور کچلنے اور کسی بھی طریقے سے اقتدار تک پہونچنے کی کوشش ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے ملک کی جمہوریت کی بنیادی ہی کھوکھلی ہوجائیں گی ۔
اتفاق اس بات کا ہے کہ بی جے پی رکن اسمبلی اور امیدوار کی گاڑی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا دستیاب ہونا عوام کی نگاہ میں آگیا ہے ورنہ ایسے کئی واقعات ہوسکتا ہے کہ پیش آئے ہوں۔ اب کمیشن نے جس بوتھ کے یہ مشین تھے وہاں دوبارہ انتخابات کروانے اور ایف آئی آر درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ اقدامات کافی نہیں ہوسکتے ۔ الیکشن کمیشن کو اس سارے معاملے کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی ۔ سخت نوٹ لینا ہوگا ۔ یہ تحقیقات کروانے کی ضرورت ہے کہ کونسے عہدیدار اس میں ملوث رہے ہیں ۔ یہ واقعی اتفاق ہے یا کوئی وسیع تر سازش ہے جس کا پردہ فاش کیا جانا ضروری ہے ۔
