وہ جب سے آیا ہے گھر میرا ہوگیا اُس کا
برائے نام ہی گھر میں مری رہائش ہے
جمہوری و انسانی حقوق
عالمی سطح پر ہندوستان کی جمہوریت کے تعلق سے پیدا ہونے والی منفی رائے کے بعد مرکز کی بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت نے ہندوستانی جمہوریت کے مضبوط ریکارڈ کی مدافعت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے جمہوری اقدار مضبوط و مستحکم ہیں ۔ جمہوری اداروں کو آزادانہ اختیارات کے ساتھ کام کرنے کی کھلی اجازت ہے ۔ ایک طرف مودی حکومت اپنی حکمرانی کی خرابیوں سے ہندوستانی جمہوریت پر پڑنے والی ضرب کو عالمی سطح پر محسوس کئے جانے پر بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے تو دوسری طرف وہ ہندوستانی اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر چشم پوشی اختیار کررہی ہے ۔ اس سلسلہ میں امریکی ڈیفنس سکریٹری لائیڈ آسٹن نے اپنے دورہ ہند کے دوران ہندوستان میں انسانی حقوق کی ابتری کا سوال اٹھایا ۔ امریکہ کے ایک اہم نمائندہ کی ہندوستانی اقلیتوں کے بارے میں تشویش ظاہر کرنا غور طلب امر ہے ۔ لائیڈ آسٹن نے ہفتہ کے دن ہندوستانی وزراء کے ساتھ ہندوستان میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کے بارے میں توجہ دلائی لیکن وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات مختصر رہنے سے وہ مودی کے سامنے انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھا نہیں سکے ۔صدر امریکہ اور نائب صدر کملا ہیرس کے نظم و نسق میں وزارت دفاع کا قلمدان سنبھالنے والے پنٹگان کے سربراہ کا دورہ ہند ایک ایسے وقت ہوا جب ہندوستان کی مودی حکومت میں اقلیتوں کو ہراساں کئے جانے کے واقعات عام ہوگئے ہیں ۔ آسٹن نے انسانی حقوق پر خاص توجہ دی ہے ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی امریکہ کے لیے اہم ہے ۔ امریکہ میں جس طرح انسانی حقوق کا مسئلہ پایا جاتا ہے وہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی موجود ہے لیکن ہندوستان کا معاملہ مختلف ہے ۔ یہاں کی حکومت کی پالیسیاں اور منصوبے صرف اکثریتی طبقہ کی طرف دکھائی دیتی ہیں ۔ یہاں پر حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو غدار قرار دیا جارہا ہے ۔ ممتاز ماہر معاشیات رگھورام راجن نے بھی ہندوستان میں اظہار خیال کی آزادی کو ایک سنگین صورتحال سے دوچار قرار دیا ہے ۔ حال ہی میں وزیراعظم مودی کی چار ملکوں کے اتحاد کواڈ کی میوچول کانفرنس میں امریکہ ، آسٹریلیا ، ہندوستان اور جاپان کے قائدین کے درمیان بات چیت ہوئی ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے مشترکہ چیلنجس سے نمٹنے پر زور دیا تھا لیکن اپنے ملک ہندوستان میں انسانی حقوق کے بارے میں ان کی رائے کواڈ اتحادی ملکوں کی رائے سے مختلف ہے ۔ وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کی ابتری پر ہندوستان کو عالمی سطح پر پہونچنے والے دھکہ کو نظر انداز کرتے آرہے ہیں ۔ ہندوستان اس وقت انسانی حقوق کے مسئلہ پر عالمی سطح پر یکا و تنہا ہورہا ہے ۔ امریکہ کے تھنک ٹینک نے بھی گذشتہ دنوں ہندوستان میں ہورہی اقدار کی پامالی اور جمہوری اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے تھے ۔ ہندوستان کی اقلیتوں کے حوالے سے عالمی قائدین نے جو کچھ رائے بنائی ہے اس پر توجہ دینا مودی حکومت کی ذمہ داری ہے کیوں کہ اس سے ہندوستان کی جمہوری تاریخ کو دھکہ پہونچ رہا ہے ۔ مودی حکومت جب عالمی سطح پر اپنے لیے نئے پارٹنرس بنانے کی کوشش کررہی ہے تو یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آیا ان ملکوں کے اندر ہندوستان کے جمہوری اور انسانی حقوق کے مسائل کو کس طرح دیکھا جارہا ہے اظہار خیال کی آزادی اور جمہوری حقوق پر مودی حکومت کی پیشرو حکومتوں نے جس طرح کام انجام دیا ہے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے غداری ، قوم دشمنی اور اس طرح کے سنگین الزامات کے ساتھ شہریوں کو خوف زدہ کرتے ہوئے ملک کے اندر قانون کی حکمرانی کو یکطرفہ بنایا جائے تو پھر اس مسئلہ کو بیرونی طاقتیں وقتاً فوقتاً اٹھاکر ہندوستان کے جمہوری اقدار کی پامالی کا نوٹ لیتی ہیں تو یہ افسوس کی بات ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ اشوکا یونیورسٹی سے پرتاپ بھانو مہتا اور اروند سبرامنین نے استعفے دیئے ہیں ۔ سونی پت سے کام کرنے والی اشوکا یونیورسٹی بھی اظہار خیال کی آزادی کے تنازعہ میں گھر گئی ہے ۔ پروفیسر مہتا نے ان لوگوں پر سوال اٹھائے تھے جو حکومت اور سپریم کورٹ جیسے دستوری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر غیر جمہوری اور غیر دستوری کارروائی کررہے ہیں ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے تو یہاں کے عوام کے حقوق کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے ۔
