سید جلیل ازہر
زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جس سے بات کرکے سکون ملتا ہے جن سے ہمارا کوئی مفاد جڑا نہیں ہوتا ، پھر بھی وہ ہمارے لئے ضروری ہوتے ہیں ۔ اندھیری شب میں کسی ستارے کی مانند جن کے وجود کی روشنی ہماری زندگی کے اندھیرے راستوں کو منور کرتی چلی جاتی ہے ۔ بظاہر وہ بے نام سا تعلق کبھی دوستی کے پردے میں چھپا یا کبھی ایسا رشتہ جس کا کوئی نام ہی نہ ہو لیکن سب سے جدا سب سے اہم محسوس ہوتا ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی بھی وقت اس خوبصورت رشتے کی ڈور ہاتھ سے چھوٹ جائے گی ۔ پھر بھی وہی عزیز ہوتے ہیں ، ایک ایسا رشتہ جسے ہم کھونا بھی نہیں چاہتے اور کوئی نام بھی نہیں دے پاتے ایسے خوبصورت لوگ جو دل کے کونے میں خاموشی کے ساتھ جگہ بنالیتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے ہمارے دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ ہیں ظہیر الدین علی خان منیجنگ ایڈیٹر روزنامہ سیاست جن کے نام کے ساتھ انتقال کی خبر قلمبند کررہا ہوں تو ہاتھ کانپ رہے ہیں ۔ ان کے پسماندگان پر کیا گزررہی ہوگی جن کے سر سے شفیق باپ کا سایہ اٹھ گیا ۔ تمام افراد کے پسندیدہ شخص کی موت کے بعد اس خاندان پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے ۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل جن کی یہ ہمیشہ رہنمائی اور مدد فرماتے تھے ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ۔ ہر پریشان حال کی بروقت مدد کرنے والی شخصیت جنہوں نے تعلیم کا جال بچھادیا تھا ملک کے کسی بھی حصہ میں سیلاب یا فسادات سے تباہ حال لوگوں کی مدد کے لئے فوری پہنچنے والے ظہیر الدین علی خان صاحب سے میں جب ملا ان کے چیمبر میں ملاقات کی تو وہ حالات اور نوجوانوں کے روزگار اور تعلیم جیسے مسائل پر اس خاکسار سے گفتگو کیا کرتے تھے ان کی کارکردگی غریب عوام سے ان کی اٹوٹ وابستگی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے ۔
فرشتے ان کو دعاؤں میں ساتھ رکھتے ہیں
انہیں کے حق میں بھلائی کی بات رکھتے ہیں
خدا کی رحمتیں نازل انہیں پہ ہوتی ہیں
کسی یتیم کے سر پر جو ہاتھ رکھتے ہیں
اب وہ ہاتھ نہیں رہے کیا خدا کی مصلحت تھی جو ایسی ہستی کو بہت جلد بلالیا ۔ میں جب بھی ان سے ملا کبھی انہیں مایوس نہیں پایا ہر دم مسکراتا چہرہ ۔ انہوں نے عوامی خدمت کیلئے خود کو قربان کردیا تھا ۔ عوامی خدمات کے شعبہ ، تعلیمی شعبہ ، بے سہارا ، یتیم بچوں ، فساد سے متاثرین اور بھی کئی خدمات ہیں جناب ظہیر الدین علی خان نے جو کام کردکھایا ہے تاریخ اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے شخص نہیں شخصیت بن کر کام کیا ہے کیونکہ شخص تو خاک ہوجاتے ہیں مگر شخصیت ہمیشہ زندہ رہتی ہے ۔ روح میں بسا ہوا شخص دل سے کبھی نہیں نکلتا ۔ کسی نے خوب کہا تھا میں کچھ تبدیلی کے ساتھ قلمبند کرنے جارہا ہوں ۔ جس طرح سے پھول کی مہک یا خوشبو کا کوئی رنگ نہیں ہوتا جس طرح سے بہتے ہوئے پانی کے جھرنے یا ٹھنڈی ہواؤں کا کوئی گھر دار وطن دیش نہیں ہوتا جس طرح سے ابھرتے ہوئے سورج کی کرنوں کا یا کسی معصوم بچے کی مسکراہٹ کا کوئی مذہب و بھید بھاؤ نہیں ہوتا اسی طرح عوامی خدمات کے میدان میں ظہیرالدین علی خان صاحب کی شخصیت بھی قدرت کا ایک کرشمہ تھی ۔
جس کے لفظوں میں تمہیں اپنا عکس ملے
بہت مشکل ہے تمہیں کوئی ایسا شخص ملے