جنتیوں کے آفتاب حضرت عمرفاروقؓ

   

شہادت: غرہ محرم الحرام ۲۴ ہجری

ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی
خلفیۂ دوم کا نامِ عمر، کنیت ابوحفص اور لقب فاروق اعظم ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ قبیلۂ قریش میں بہت ہی ممتاز شخصیت رہے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب آٹھویں پشت میں حضور اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔
ولادت: حضرت عمر فاروق ؓ واقعۂ فیل کے تیرہ سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔
اعلان نبوت کے چھٹویں سال، ستائیس (۲۷) برس کی عمر میں اسلام قبول کئے۔ آپؓ بے شمار کمالات کے حامل اور بے حساب خوبیوں کے مالک تھے۔ آپؓ زہد و تقویٰ کے پیکر، بہادری اور دلیری کے مظہر اور عدل و انصاف پسند شخصیت تھے۔ آپؓ کے عدل و انصاف کا اعتراف ہر کوئی کرتے اور کہتے کہ اگر کسی کو کامیاب حکمرانی کرنی ہو تو وہ حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت کو پیش نظر رکھے۔ یہ سب کچھ حضور اکرم ﷺ کی اس دعا کا صدقہ ہے، جس میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اے اللہ! اسلام کو عزت و بلندی عطا فرما، بطور خاص عمر بن خطاب کے ذریعہ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا، جس کی گواہی تاریخ اس طرح دیتی ہے کہ کبھی یہ دعائے مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم عدل و انصاف کی شکل میں نظر آئی تو کبھی علانیہ ہجرت کی شکل میں۔
ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایاہے : ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ حضرت عمر (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) کو دیکھ کر شیاطین، جنات اور بُرے لوگ سب بھاگ رہے ہیں‘‘۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک تم سے پہلے کی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اگر میری امت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے‘‘ (متفق علیہ)۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے پیا، یہاں تک کہ سیرابی کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ پھر بچا ہوا دودھ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا‘‘۔ لوگ عرض گزار ہوئے: ’’یارسول اللہ ا ! آپ اس سے کیا مراد لیتے ہیں‘‘۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’علم‘‘۔ آپ ہی سے روایت ہے کہ حضوراکرم ا نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا ہے‘‘۔ (ترمذی)
حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ ’’میرے دو وزیر آسمانوں میں جبرئیل و میکائیل ہیں اور زمین میں دو وزیر ابوبکر و عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہیں‘‘ (ترمذی)۔
حضرت محمد بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابن خطاب! مبارک ہو، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جس راہ سے عمر گزرتا ہے شیطان اس راہ سے ہٹ جاتا ہے‘‘۔(بخاری)
حضوراکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے فاروق اعظم سے محبت کی، گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے عمر کو ناراض کیا، اس سے میں بھی ناراض ہوں‘‘۔ (نزہۃ المجالس)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضوراکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’عمر بن خطاب جنتیوں کے آفتاب ہیں‘‘۔ ایسی بہت سی احادیث ہیں، جن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کا مقام و مرتبہ نگاہِ مصطفی میں کیا تھا۔ آپ کے تنہا فضائل میں بھی احادیث موجود ہیں اور اٹھاسی (۸۸) احادیث ایسی ہیں، جن میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔
آپ ؓ نے بیت المال کا قیام ، عدالتوں کا قیام ، تاریخ اور سنہ کا رواج جو آج تک جاری ہے ، امیرالمؤمنین کا لقب ، فوجی دفاتر کی تربیت ، فوجیوں اور سماجی کارکنوں کی تنخواہوں کا تعین ، دفتر مال کا قیام ، پیمائش کا طریقہ ، مردم شماری ، نہریں کھدوانا ، شہرآباد کرنا ، ممالک محروسہ کو صوبوں میں بانٹنا ، عشور مقرر کرنا ، دریا کی پیداوار پر محصول ، حربی تاجروں کو ملک میں داخلہ اور تجارت کی اجازت ، جیل خانوں کا قیام ، زرہ کا استعمال ، راتوں کو گشت کا طریقہ ، پولیس کا محکمہ قائم کا ، فوجی چھاؤنیاں ، گھوڑوں کی نسلوں میں تمیز ، پرچہ نویس کا تقرر ، مکہ و مدینہ کے درمیان چوکیوں اور سرائیں بنوائیں تاکہ مسافروں کو آرام ہو ، لاوارث بچوں کی نگہداشت اور پرورش کا انتظام اور روزینے مقرر کرنا ، اہل عرب غلام نہیں بنائے جاسکتے یہ قاعدہ بنایا ، مفلوک الحال یہودیوں اور عیسائیوں کے روزینے ، معلموں اور مدرسوں کے مشاہرے مقرر کئے ، قرآن حکیم کی تدوین کروائی ، فقہ میں قیاس کا اصول قائم کیا ، نماز تراویح کے لئے جماعت کا قیام ، شراب کی حد اسی کوڑے مقرر کی ، وقف کا طریقہ ایجاد کیا ، نماز جنازہ میں چار تکبیرات پر اجماع کروایا ، مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا، ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں مقرر کیں ، مسجدوں میں روشنی کا طریقہ رائج کیا ، ہجو کہنے والوں کے لئے سزاء مقرر کی ، غزلوں میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا ۔
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ حضوراکرم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے اور آپ وہ بہادر ہیں کہ غزوۂ احد میں جب جنگ کا نقشہ بدل گیا اور مسلمانوں میں افرا تفری پیدا ہوئی تو اس حالت میں بھی آپ ثابت قدم رہے۔ (تاریخ الخلفاء)
حضرت عمر فاروق ؓ کی شہادت کے متعلق پہلے ہی بتلادیا گیا، چنانچہ ایک روز حضوراکرم ﷺ احد پہاڑ پر تشریف فرما ہوئے تو پہاڑ اپنے مقدر پر ناز کرتے ہوئے فرط مسرت سے جھومنے لگا، حضوراکرم ﷺ نے قدم مبارک مارکر اس سے فرمایا: ’’اے اُحد! تھم جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں (یعنی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہما)‘‘۔
ایک دفعہ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک ضعیف شخص کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھ کرپوچھا: ’’کیوں بھیک مانگتا ہے؟‘‘۔ اس نے کہا: ’’مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے اور مجھ میں ادا کرنے کی قدرت نہیں ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ اس کو اپنے ساتھ گھر لائے اور کچھ نقد رقم دےکر بیت المال کے داروغہ کو حکم دیا کہ ’’اس قسم کے معذوروں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے‘‘۔ اور اس موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اللہ کی قسم! یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان لوگوں کی جوانی سے ہم فائدہ اٹھائیں اور بڑھاپے میں ان کو نکال
دیں‘‘۔ (کتاب الخراج)
شہادت: حضرت عمر فاروق ؓ فجر کی نماز کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے۔ آپ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ تکبیر تحریمہ سے پہلے فرمایا کرتے کہ ’’صفیں سیدھی کرلو‘‘۔ یہ سن کر ابولولو مجوسی آپ کے بالکل قریب صف میں آکر کھڑا ہو گیا اور آپؓ کے پہلو اور کندھے پر خنجر سے وار کیا، جس سے آپ گرپڑے۔ اس کے بعد اس بدبخت نے دیگر تیرہ نمازیوں کو بھی زخمی کیا، جن میں سے بعد میں چھ افراد کا انتقال ہو گیا۔ اسی دوران ایک عراقی نے ابولولو پر کپڑا ڈال دیا، جب وہ اس کپڑے میں اُلجھ گیا تو اس نے اسی وقت خودکشی کرلی۔ یہ حملہ آپؓ پر ۲۶؍ذو الحجۃ الحرام ۲۳ھ کو ہوا اور تین دن بعد غرہ (یکم ) محرم الحرام۴ ۲ھ کو بعمر ترسٹھ(۶۳) سال شہادت نصیب ہوئی۔
حضرت عمر فاروق ؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پڑھائے (تاریخ الخلفاء) آپؓ کو خلیفۂ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پہلوئے مبارک میں دفن کیا گیا۔(اناﷲ وانا الیہ راجعون) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسوۂ فاروقی ؓاپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
zubairhahsmi7@yahoo.com