جنسی استحصال کے واقعات ‘ امتیاز کیوں؟

   

ملک میں جنسی استحصال اور عصمت ریزی جیسے گھناؤنے اور سنگین واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں ۔ ملک کے ہر چھوٹے اور بڑے شہر میں ایسے واقعات معمول بن گئے ہیں اور مجرمین قانون سے ڈرنے اور گھبرانے کی بجائے اس کا استحصال کرتے ہوئے بچ نکلنے کی راہیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات تھمنے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں اور انسانیت شرمسار ہوتی جا رہی ہے ۔ جہاں قانونی پہلووں میں کوئی کمی محسوس ہو رہی ہے وہیں سیاسی معاملات بھی ایسے واقعات میں انتہائی تکلیف دہ رول ادا کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس طرح کے واقعات میں اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امتیازی رویہ اختیار کر رہی ہیں۔ جہاں سارے ملک میں کولکتہ میں پیش آئے عصمت ریزی و قتل کے واقعہ کے خلاف برہمی پیدا ہوئی ہے اور سیاسی جماعتیں اس پر اپنی روٹیاںسینکنے میں مصروف ہیں وہیں اس طرح کے دوسرے واقعات پر یہی جماعتیںخاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنے ڈوغلے پن اور دوہرے معیارات کا ثبوت دے رہی ہیں۔ دارالحکومت دہلی سے قریب غازی آباد میں بھی اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا جہاں ایک 33 سالہ نرس کا اغواء کیا گیا ۔ اس کی عصمت ریزی کی گئی اور پھر اس کا قتل کردیا گیا ۔ اس پر نہ ڈوغلا میڈیا کوئی خبر پیش کرنے تیار ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں اس جانب توجہ دینا چاہتی ہیں کیونکہ یہ معاملہ بی جے پی اقتدار والی ریاست کا ہے ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا میں نرسری کی دو طالبات کے ساتھ دست درازی کا واقعہ پیش آتا ہے ۔ وہاں بھی عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں لیکن ڈوغلا میڈیا یا مفاد پرست سیاسی قائدین اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتے کیونکہ یہاں بھی بی جے پی کی حمایت والی حکومت قائم ہے ۔ اس صورتحال میں سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی اس طرح کے واقعات پر حقیقی تشویش کا شکار نہیںہے بلکہ صرف سیاسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے یا تو مسئلہ بنادیتے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ مسئلہ بنانے کا بھی ان کا اپنا جواز ہوتا ہے اور خاموشی اختیار کرنے کے بھی ہزار بہانے ہوتے ہیں۔
جس طرح کولکتہ میں عصمت ریزی وقتل کا شکار ہونے والی ڈاکٹر لڑکی ہماری اپنی تھی اسی طرح غازی آباد میں بھی اس گھناؤنی حرکت کا شکار ہونے والی لڑکی بھی ہماری اپنی ہے اور مہاراشٹرا کے بدلا پور میں بھی جو انسانیت سوز حرکت پیش آئی ہے وہ بھی ہماری اپنی بچیاں ہیں۔ اس کے باوجود میڈیا اور سیاسی جماعتیںامتیازی سلوک اختیار کی ہوئی ہیںاور یہ ان کے ڈوغلے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ مہاراشٹرا واقعہ پرتو سارے ملک میں ہنگامہ کیا جا رہا ہے یا کروایا جا رہا ہے لیکن غازی آباد اوردوسرے واقعات پر ایسا لگتا ہے کہ انہیں سانپ سونگھ گیا ہے یا پھر وہ غازی آباد اور مہاراشٹرا کو ہندوستان کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ جس طرح کولکتہ واقعہ کیلئے چیف منسٹر بنگال ممتابنرجی سے استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اسی طرح بی جے پی کو دو ریاستوں میں اپنے ہی چیف منسٹروں کو سب سے پہلے مستعفی کرواتے ہوئے مثال قائم کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا کرنے کی بجائے ان دو ریاستوں میں بی جے پی اس طرح کے واقعات پر جواز تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ اخلاقی گراوٹ ہے اور اس کے ذریعہ پارٹی کی ذہنی سطح اور گراوٹ کا بھی ثبوت ملتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ جنسی استحصال کے واقعات یہیںتک محدود ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ کئی واقعات ایسے بھی ہوتے ہیںجن کا کوئی نوٹس نہیں لیتا حالانکہ وہ بھی انتہائی سنگین اور شرمسار کردینے والے واقعات ہی ہیں۔
جنسی استحصال یا عصمت ریزی جیسے واقعات سارے ملک اور سارے سماج کیلئے ایک کلنک سے کم نہیںہیں۔ ان سے ساری انسانیت شرمسار ہوتی ہے ۔ اس طرح کے واقعات کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ملزمین کے ساتھ چاہے وہ کوئی بھی ہوں کوئی نرمی یا ہمدردی کا برتاؤ کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے سخت ترین قوانین بنائے جانے کی ضرورت ہے وہیں ان پر کسی امتیاز سے بھی گریز کیا جانا چاہئے ۔ کسی واقعہ کو اچھال دینے اور کئی واقعات کو نظر انداز کردینے کی ڈوغلی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا ۔ ایسے معاملات پر سیاست کو ایک جرم کی طرح دیکھا جانا چاہئے ۔ تب ہی سیاسی جماعتیں ایسے گھناؤنے اور شرمسار کرنے والے واقعات پر بھی سیاست کرنے سے گریز کریں گی۔