حضرت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی مکہ مکرمہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنو عدی کی نسبت سے عدوی کہلاتے تھے۔ آپ کی ولادت حرب فجار اعظم سے چار سال پہلے ہوئی۔ صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف نسبت کرکے ابو حفص کنیت اختیار کی۔
آپ گورے، بہت اونچے، لحیم و شحیم تھے، دائیں بائیں دونوں ہاتھوں سے کام کرتے تھے۔ دوڑتے گھوڑے پر اچھل کر بیٹھ جاتے تھے۔ ابن سعد (صفحہ ۲۳۵) کے مطابق زمانہ جاہلیت میں عکاظ کے میلے میں دنگل میں کشتی بھی لڑا کرتے تھے۔ مکہ کی دس موروثی وزارتوں میں ایک وزارت سفارت و مفاخرت آپ کے قبیلہ کے سپرد تھی۔ کسی دوسرے قبیلہ سے امن یا جنگ میں گفت و شنید کرنی ہوتی تو شہر کی طرف سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہی نمائندگی کرتے۔ زمانہ جاہلیت میں عراق و شام وغیرہ کے بکثرت سفر کئے، وہاں کے اور عرب کے حکمرانوں سے ملاقاتیں کیں۔
ابتداء میں آپ اسلام کے سخت ترین مخالف تھے اور مسلمان ہونے والوں خاص طورپر اپنے قبیلے کے نومسلموں کی ایذا کے درپے رہا کرتے تھے۔ آپ کے اسلام لانے سے متعلق دو مختلف روایات ہیں، ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ کو (نعوذ باللہ) شہید کرنے کے ارادہ سے نکلے تھے کہ راستے میں ایک رشتہ دار نے کہا: ’’پہلے اپنے گھر یعنی بہن اور بہنوئی کی خبر لو‘‘۔ وہاں کچھ تکرار کے بعد قرآن کے کچھ اجزاء دیکھے اور پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
دوسرا بیان یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی نماز میں تلاوت قرآن سنی اور اس سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اگرچہ روایات میں اختلاف ہے، تاہم سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ آپ قرآن مجید پڑھ کر یا سن کر قرآن مجید سے متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ نیز نہایت جلال کی حالت میں بھی کوئی قرآن مجید کی تلاوت کردیتا تو آپ کا جلال فرو ہو جاتا۔ آپ نے ذوالحجہ سنہ ۶نبوی، ہجرت سے سات سال قبل چھبیس یا ستائیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، بھرے مجمع میں اپنے اسلام کا اعلان کیا اور دیر تک جم غفیر کی زدوکوب کا تنہا مقابلہ کیا۔ بعد ازاں نہ صرف ہر وقت نبی اکرم ﷺ اور عام مسلمانوں کی مدافعت میں ڈٹے رہے، بلکہ اپنے قبیلہ بنوعدی کی عملی مخالفت رکوانے میں کامیاب رہے۔ مثلاً دارالندوہ میں جب رسول اکرم ﷺ کے قتل کے لئے مشاورت ہوئی تو بنوعدی کا کوئی غیر مسلم اس میں شریک نہ ہوا۔ ہجرت کے بعد غزوۂ بدر ہوا تو مکہ مکرمہ سے آنے والی دشمن فوج میں بھی بنوعدی کا کوئی فرد نہ تھا۔
ہجرت سے قبل مواخاۃ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی تھے اور بعد ہجرت حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی بنے۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، حضور پاک ﷺ کی خدمت میں رہتے تو حضرت عتبان باغبانی کرتے اور دوسرے دن حضرت عتبان حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں رہتے اور حضرت عمر باغبانی کرتے اور ایک دوسرے کو احوال و اخبار سے آگاہ کرتے۔
ہجرت کے ابتدائی زمانے میں جب لوگ بڑی کثرت سے مسلمان ہونے لگے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے عورتوں کی بیعت لینے کے لئے آپ کو مامور فرمایا۔ وہ غزوہ بدر سے غزوہ تبوک تک ہر معرکے میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ غزوہ تبوک کی تیاری کے لئے آپ نے اپنی آدھی جائداد چندے میں دے دی تھی۔ خیبر میں انھوں نے ایک زرخیز زمین خریدی، پھر نبی اکرم ﷺ سے مشاورت کے بعد وقف کردیا۔ نیز آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ متعدد مرتبہ قرآن مجید آپ کی رائے اور مشورہ کی تائید میں نازل ہوا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو زمین میں اپنے دو وزیر قرار دیا اور دونوں کو اپنی آنکھ اور کان قرار دیا۔ حضرت عمر فاروق کے بارے میں فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے‘‘۔ اور فرمایا: ’’جس راستے سے عمر کا گزر ہوتا ہے، شیطان اپنا راستہ بدل دیتا ہے‘‘۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی وفات حسرت آیات پر سقیفۂ بنی ساعدہ کے اجتماع میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ حضرت عمر یا حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہما میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنالیا جائے، مگر دونوں نے انکار کردیا اور بالاتفاق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی گئی۔
مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں بکثرت مسلمان شہید ہوئے، جن میں بہترین قاری اور حفاظ بھی شامل تھے۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن مجید کو بین الدفتین جمع کرنے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ہچکچائے، مگر پھر مطمئن ہو گئے اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے رفقاء کو اس کی تکمیل کا حکم فرمایا، اس طرح حضرت عمر کے مشورہ پر اسلام کا یہ بڑا کارنامہ انجام پایا۔
خلافت صدیقی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ کے قاضی بنے، مگر لوگوں کے اخلاق اتنے اچھے تھے کہ مہینے گزر جاتے اور ایک مقدمہ بھی نہ آتا تھا (ابن عبد البر: الاستیعاب) آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دست راست اور مشیر خاص تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق بستر مرگ پر تھے، حضرت عثمان کو بلاکر ایک وصیت نامہ املا کرایا کہ ’’میں مر جاؤں تو میرا جانشین‘‘۔ اتنا کہنے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انتہائی بے نفسی سے جملہ مکمل کرنے کے لئے ’’حضرت عمر بن خطاب ہوں گے‘‘ بڑھا دیا۔ جب کچھ دیر بعد حضرت ابوبکر دوبارہ ہوش میں آئے تو پوچھا: ’’کیا لکھا ہے؟‘‘۔ جب حضرت عمر کی جانشینی کا جملہ سنا تو آپ نے تعریف کی اور فرمایا کہ ’’تم بہت صلاحیتوں کے مالک ہو‘‘ (ابن سعد: الطبقات۳؍۱) پھر وصیت نامہ مکمل کروایا، لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا اور اس میں مندرج شخص کی بیعت کرنے کے لئے کہا۔ سب نے خوشی سے اس نامعلوم جانشین کیلئے بیعت کی۔ بعض اجلہ صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے مشاورت کی اور حضرت عمر کی شدت کا ذکر کیا۔ حضرت ابوبکر جوش میں اٹھ بیٹھے اور فرمایا ’’اللہ سے کہوں گا کہ تیری مخلوق میں سب سے بہتر شخص کو جانشین بنایا ہوں‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد لفافہ کھولا گیا اور بلا اختلاف بیعت ہوئی۔
آپ کے عہد خلافت میں اسلام اور مسلمانوں کو مزید استحکام ہوا۔ خوشحالی اور فراوانی ہر سو عام ہو گئی۔ فوجی فتوحات سے مؤرخین دنگ ہیں کہ مٹھی بھر اور بے ساز و سامان افراد دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتوں سے بیک وقت مقابلہ کرتے ہیں اور بعض اوقات مشترک سرحد کے منطقوں میں ایرانی و رومی دونوں کی متحدہ قوت سے جنگ کرتے ہیں اور دس ہی برسوں میں تونس و ترکستان تک اس طرح قبضہ کرلیتے ہیں کہ پھر تخلیہ تو کیا مقامی باشندے بغاوت بھی نہیں کرتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے لئے علحدہ و مستقل باب و مضمون درکار ہے۔ بہرکیف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے دنیا کو عدل و انصاف سے بھرکر یکم محرم الحرام سنہ ۲۴ھ کو ابولولو نامی مجوسی غلام کے قاتلانہ حملہ میں شہید ہوئے اور حضور نبی اکرم ﷺ و حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔