جوانوں اور شہیدو ں کے نام پر ووٹ

   

سنتے ہیں کہ اپنے ہی تھے گھر لوٹنے والے
اچھا ہوا میں نے یہ تماشہ نہیں دیکھا
جوانوں اور شہیدو ں کے نام پر ووٹ
کیا ملک کی باوقار فوج اور دہشت گرد حملوں میں شہید ہونے والوں کے نام پر ووٹ مانگے جاسکتے ہیں ؟۔ دیانتداری اور غیر جانبداری سے اس کا جواب نفی میں ہی ہوسکتا ہے تاہم ہمارے ملک میں اب یہ روایت بن گی ہے کہ عوام کو حقیقی مسائل سے ہٹا کر ایسے موضوعات میں الجھا دیا جائے جن کے ذریعہ صرف سیاسی فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ جب سے انتخابات کا بگل بجایا گیا ہے اس وقت سے بی جے پی اور اس کے قائدین اور اب وزیر اعظم بھی ایسے ہی امور پر اظہار خیال کر رہے ہیں اور کھلے عام ملک کی بہادر فوج اور شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگا جا رہا ہے ۔ یہ ہماری فوج کی اور شہیدوں کی توہین ہے ۔ انتخابات میں جو لوگ مقابلہ کر رہے ہیں انہوں نے کبھی فوجی خدمات انجام نہیں دی ہیں اور ہماری جو فوج ہے وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیتی ۔ اس طرح فوج اور انتخابات کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تاہم بی جے پی اور خود وزیر اعظم کی جانب سے فوج کے نام پر ووٹ مانگا جا رہا ہے ۔ شہیدوں کے خون کی دہائی دی جا رہی ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک کی فلاح و بہبود ‘ عوام کی ترقی اور ملک کے استحکام کیلئے ووٹ مانگا جائے ۔ حکومت کے کام کاج کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے ۔ عوامی اسکیمات پر اظہار خیال کیا جائے ۔ گذشتہ پانچ سال میں ملک میں پیش آئے واقعات پر روشنی ڈالی جائے ۔ یہ واضح کیا جائے کہ حکومت نے کس محاذ پر کتنی کامیابی درج کی ہے ۔ ملک میں جملہ گھریلو پیداوار کی شرح میں کتنا اضافہ کیا گیا ہے ۔ معیشت کی صورتحال کیا ہوگئی ہے ۔ روزگار کے محاذ پر ملک کو کس قدر استحکام حاصل ہوا ہے ۔ ملک میں خواتین کی سلامتی کی صورتحال کیا ہوگئی ہے ۔ تعلیم کے شعبہ میں ملک نے کتنی ترقی کی ہے ۔ ہماری جامعات اور یونیورسٹیز کا حال کیا ہے ۔ یونیورسٹیز کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ عوام کو نگہداشت صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے حکومت نے کیا کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ عوام کے معیار زندگی میں کس قدر بہتری آئی ہے ۔ ملک میں فی کس آمدنی کی شرح پانچ سال قبل کیا تھی اور اب کیا ہوگئی ہے ۔ مہنگائی کی شرح اور افراط زر کی صورتحال کیا ہے ۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ ان تمام مسائل سے بی جے پی خوفزدہ ہے اور خود وزیر اعظم اور ان کے حاشیہ برداروں کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ ملک کے عوام مسائل کی بنیاد پر انہیں دوبارہ موقع دینے کے حق میں نہیں ہیں اسی لئے فوج کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ فوج کو سیاسی لڑائی کا حصہ بنایا جا رہا ہے جبکہ ہماری فوج نے کبھی ملک کی سیاست میں دخل اندازی نہیں کی ہے اور اس نے سرحدوں کی حفاظت میں اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں کہ سارا ملک اور ملک کے عوام کو فوج پر فخر ہے ۔ پلواما میں جو دہشت گرد حملہ ہوا تھا اس پر سارے ملک نے غم و غصہ کا اظہار کیا تھا ۔ ہر شہید سے ملک نے والہانہ ہمدردی کا اظہار کیا تھا ۔ کسی نے بھی اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ کئی گوشوں سے اس حملہ پر انٹلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھایا گیا تھا ۔ حکومت نے اس ناکامی پر تو کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا لیکن اس حملے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بعد میں فوج کی جانب سے پاکستان میں بالاکوٹ کے مقام پر کئے گئے فضائی حملوں کا بھی حکومت کی جانب سے سیاسی استحصال کیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ سیاسی فائدے حاصل کرنے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے جو انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ خود حکومت اور اس کے سربراہ وزیر اعظم بھی ایسا کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری فوج ملک کی آزادی کے بعد سے ہی ہماری سرحدات کی حفاظت کر رہی ہے اور یہ فوج ہی ہے جس کی وجہ سے ملک کی سالمیت برقرار ہے ۔ ہندوستان کے عوام سکون اور چین کی نیند سوتے ہیں لیکن یہ ہمارے سیاستدان ہیں جو عالیشان بنگلوں میں رہتے ہوئے صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں اور ان ہی فوجیوں کے تابوت تک بیچنے سے انہوں نے گریز نہیں کیا تھا ۔ بالا کوٹ حملہ ہماری فضائیہ نے کیا تھا کسی وزیر یا سیاستدان نے نہیں کیا تھا ۔ ایسے میں سیاستدانوں اور خاص طور پر بی جے پی قائدین اور خود وزیر اعظم کو ملک کے بہادر جوانوں اور شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگنے سے گریز کرنا چاہئے ۔