جو کوئی حج کی نیت کرے …!

   

محمد عامر نظامی
قرآن کی آیت مبارکہ سے یہ عنوان لیا گیاجیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشادہے : ’’حج کے چند معلوم مہینے ہیںتو جو کوئی حج کی نیت کرے تو حج میں نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہواور نہ کوئی گناہ ہو اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے جانتا ہے اور زادِ راہ ساتھ لے چلو پس سب سے بہترین زاد ر اہ یقیناً پر ہیزگاری ہے اور اے عقل والو مجھ سے ڈرتے رہو‘‘۔
حج کرنے والے حضرات کو ان چیزیں سے بچننا ضروری ہے، (۱) رَفَثَ : رفث سے مراد ہم بستری کرنا یا عورتوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا یا فحش کلام کرنا، (۲) فُسُوْق سے بچنا، فسوق کے معنی گناہ اور برائی کے کام (۳) جِدَالْ سے بچنا، جدال سے مراداپنے ہمسفروں یا خادموں کے ساتھ جھگڑا کرنا، یاد رہے کہ گناہ کے کام اور لڑائی جھگڑاکرنا یہ تو ہر جگہ ممنوع اور حرام ہے لیکن چونکہ حج ایک عظیم اور مقدس عبادت ہے اس لئے اس عبادت کے دوران ان ممنوع چیزوں سے بچنے کی خاص تاکید کی گئی ہے، وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْـرٍ برائیوں کی ممانعت کے بعد نیکیوں کی ترغیب دی جارہی ہے کہ بجائے فسق و فجور کے تقوی اختیار کرو اور بجائے لڑائی اور جھگڑے کے اخلاق حمیدہ اختیار کرو، اور حکم دیا گیا کہ سفر کا سامان لے کر چلو ،دوسروں پر بوجھ نہ ڈالو اور سوال نہ کرو کہ یہ تمام چیزیں توکل اور تقوی کے خلاف ہے، اور تقوی ہی بہترین زاد راہ ہے، نیز یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ جس طرح دنیوی سفر کیلئے سامان سفر ضروری ہے ایسے ہی سفر آخرت کیلئے پرہیزگاری کا سامان بھی ضروری ہے۔
حضرت امیر المومنین سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں :تقوی یہ ہے کہ قیامت میں کوئی تیرا دامن نہ پکڑے، شریعت میں تقوی کہتے ہیں ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچاکر رکھنا جو آخرت میں مضر ہوں۔ تقوی کے چار درجے بتائے گئے ہیں (۱) تقوی کا پہلا درجہ وہ ہے جو عذاب دائمی سے محفوظ رکھے، اس درجہ کا تقوی شرک و کفر سے احتراز کرنے سے حاصل ہوتا ہے، (۲)تقوی کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ کبائرو صغائر گناہوں سے بچنا ہے، (۳) تقوی کاتیسرا درجہ یہ ہے کہ مباحات سے ممنوع کی طرح بچنا حالانکہ کہ مباح گناہ نہیں، (۴) تقوی کا چوتھا درجہ یہ ہے کہ خد ائے تعالی کے سوا کسی اور کا خیال تک دل میں نہ آئے۔