آندھرا پردیش میں وائی ایس جگن موہن ریڈی حکومت نے اقلیتوں کیلئے بھی سب پلان کو کابینہ میں منظوری دلاتے ہوئے ایک تاریخی اقدام کیا ہے ۔ ویسے تو ہندوستان بھر میں تقریبا تمام سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل سارے ہی عوام اور مسلمانوں سے بھی مخصوص وعدے کرتی ہیں اور انہیں رجھاتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرلئے جاتے ہیں لیکن جب ان وعدوں کو پورا کرنے کیلئے یاد دہانی کروائی جاتی ہے تو یا تو ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے یا پھر انہیں یکسر فراموش کردیا جاتا ہے ۔ شائد ہی کوئی وعدے ایسے رہے ہوں جن کو پورا کیا گیا ہو یا پھر پورا کرنے کی کوشش ہی کی گئی ہو۔ آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے جگن موہن ریڈی کی قیادت میںانتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ اسے اقتدار ملنے پر ریاست میں اقلیتوں کیلئے بھی سب پلان تیار کیا جائیگا اور اس کے ذریعہ ریاست کے مسلمانوں کی ترقی کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جائیں گے ۔ اب جگن موہن ریڈی نے اپنے وعدے کی تکمیل کی ہے ۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میںاقلیتوں کے سب پلان کو منظوری دلا ئی ہے اور اسے اسمبلی میںپیش کرتے ہوئے اسے باضابطہ شکل دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک وعدہ کی تکمیل کیلئے انہوں نے سنجیدہ کوشش کا آغاز کردیا ہے اور ایک اچھی پیشرفت کرتے ہوئے مثال قائم کی ہے ۔ مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں جگن نے اپنے والد ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی یاد تازہ کردی ہے ۔ راج شیکھر ریڈی نے متحدہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد حسب وعدہ مسلمانوں کو چار فیصد تحفظات فراہم کرنے اعلامیہ جاری کیا تھا ۔ حالانکہ اس پر قانونی رسہ کشی شروع ہوگئی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ متحدہ آندھرا پردیش میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو چار فیصد تحفظات سے تعلیمی اور دوسرے شعبہ جات میں فائدہ ہوا ہے ۔ اس سے استفادہ کیا گیا ہے ۔ اسی طرح اب جگن موہن ریڈی نے بھی آندھرا پردیش میں اقلیتوں کیلئے سب پلان کا اعلان کرتے ہوئے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے ۔
جگن موہن ریڈی نے اپنے اس اقدام کے ذریعہ سیاسی حوصلے اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ ہر جماعت اقلیتوں سے انصاف کرنے کا یقین دلاتی ہے اور بے شمار وعدے کرتی ہے ۔ انہیں ہتھیلی میں جنت دکھاتی ہے لیکن انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ جماعتیں اور وعدے کرنے والے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ مثال تلنگانہ میں خود موجود ہے ۔ صدر ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راو نے 2014 میں انتخابی مہم کے دوران ایک جلسہ میں اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار ملنے کے اندرون چار ماہ اقلیتوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرینگے ۔ انہوں نے ٹاملناڈو کی طرز پر تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ وقف کمشنریٹ قائم کیا جائیگا ۔ جن اوقافی اراضیات پر قبضے کرلئے گئے ہیں انہیں واپس لیا جائیگا اور مسلمانوں سے ہر شعبہ میں انصاف کیا جائیگا ۔ تاہم حقیقی صورتحال ٹی آر ایس کو اقتدار ملنے کے سات برس کے بعد بھی پہلے جیسی ہی ہے اور مسلمانوں و دیگر اقلیتوں سے بھی ناانصافیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ 12 فیصد تحفظات کے وعدے کو ایسا لگتا ہے کہ ٹی آر ایس اور خود کے سی آر فراموش کرچکے ہیں۔ ان کی پارٹی کے اقلیتی قائدین بھی اس وعدہ سے منہ پھیرنے لگے ہیں۔ وہ عوام میں اس مسئلہ پر اظہار خیال کرنا تو دور کی بات ہے پارٹی قیادت کو اس کا وعدے یاد دلانے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔ نہ وقف کمشنریٹ قائم کیا گیا اور نہ مسلمانوں کیلئے دوسری فلاحی اسکیمات کو سنجیدگی سے لاگو کیا گیا ہے ۔
آندھرا پردیش میں وائی ایس جگن موہن ریڈی نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تاریخی کارنامہ کہا جاسکتا ہے ۔ کسی ریاست کے چیف منسٹر کو اپنے وعدوں کی تکمیل میں سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر ان کی تکمیل کیلئے عزم و حوصلہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور جگن موہن ریڈی نے یہ عزم و حوصلہ دکھایا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف تلنگانہ بلکہ ملک کی تمام ریاستوں کے چیف منسٹروں کیلئے ایک مثال قائم کردی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کی ترقی اگر ممکن ہوسکتی ہے تو وہ اسی طرح کے جراء ت مندانہ فیصلوں اور اقدامات کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے اور سبھی جماعتوںاور چیف منسٹروں کو ایسی جراء ت اور ہمت کا مظاہرہ کرنا ہی چاہئے ۔
