مذکورہ واقعہ نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور حکومت کے ناکارہ انتظامیہ کو شدید تنقید کانشانہ بنایاجارہاتھا‘ کئی سیاسی قائدین جس میں وزیراعظم نریندر مودی خود شامل ہیں نے واقعہ کی سختی کے ساتھ مذمت کی تھی
خارسوان۔ماہ جون کے دوران مغربی جمشید پور سے 60کیلومیٹر کے فاصلے پر جھارکھنڈ کے پسماندہ شہر خارسوان میں قومی سرخیوں اور بدنامی کاشکار ہوگیاتھا جہاں پر تبریز نامی ایک شخص کو کھنبہ سے باندھ کر پیٹا اور جئے شرام رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیاگیاتھا۔
مبینہ طور پرچوری کے الزام میں پکڑلیاگیاتھا‘ جو بعد میں زخموں سے جانبرنہ ہوسکاتھا۔
مذکورہ واقعہ نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور حکومت کے ناکارہ انتظامیہ کو شدید تنقید کانشانہ بنایاجارہاتھا‘ کئی سیاسی قائدین جس میں وزیراعظم نریندر مودی خود شامل ہیں نے واقعہ کی سختی کے ساتھ مذمت کی تھی۔
چھ ماہ گذرے‘ خاسوران اسمبلی حلقے میں ہفتہ کے روز ویدھان سبھا کی تیاری کی جارہی ہے جہاں پر انصاری کا کوئی بھی امیدار ذکر بھی نہیں کررہا ہے‘
جس میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے دسرتھ گھاگارائی اور ان کے مخالف بی جے پی کے جواہر لال بنارا شامل ہیں۔بی جے پی اپنی دوہرے انجن کی ترقی کے نام پر ووٹ مانگ رہی ہے‘
جو مرکز اور ریاست میں اس کی حکومت پر مشتمل ہے اور جے ایم ایم کا مرکزی حربہ برسراقتدار پارٹی کے ”مخالف قبائیلی فیصلے جو پانچ سال میں لے گئے ہیں“ ہے۔
انصاری کی موت کے بعد ان کی 19سالہ بیوی شائستہ پروین خاسوران کے مضافات میں اپنی والدہ کے گھر منتقل ہوگئی۔
ہفتہ کے روز مہم ختم ہونے کے ساتھ شائستہ نے انڈین ایکسپرس کو بتایا کہ ”کئی سیاسی قائدین کالونی کے آخر تک ائے ووٹ مانگنے کے لئے‘ کوئی بھی ان کے پاس نہیں آیا۔
ووٹوں کے چلے جانے کا انہیں ڈر ستا رہاتھا“۔جارسوان میں مسلم ووٹ فیصلہ کن نہیں ہے او رمذکورہ فیملی کا ماننا ہے کہ پارٹیوں نہیں چاہتی ہیں کہ وہ کسی ایک پارٹی کی ہمدردی کو دیکھیں۔
کرائم کے بعد جے ایم ایم لیڈر ہیمنت سورین نے کہاکہ نے کہاتھا کہ مذکورہ واقعہ ریاست میں ایک واضح”مکمل طور پر نظم ونسق ناکامی“ کا نتیجہ ہے اور متوفی کی فیملی کو معاوضہ ادا کرنے کی بھی مانگ کی تھی۔
اس کے بعد پھر کبھی جے ایم ایم اور اس کے امیدوار نے واقعہ کا ذکر بھی نہیں کیاہے۔
شائستہ کی ماں شہناز بیگم نے کہاکہ ”کئی لوگوں نے کہاکہ ان کی مدد کریں گے۔ کچھ لوگوں کے پاس سے ہمیں پیسے بھی وصول ہوئی‘ جس کا استعمال شائستہ کے علاج میں ہوا۔
خود کو سنبھالنے کے لئے اس کو ملازمت کی ضرورت ہے“۔ عام آدمی پارٹی لیڈر امانت اللہ خان نے فیملی سے ملاقات کی اور ایک چیک بھی شائستہ کے حوالہ کرنے کے علاوہ دہلی وقف بورڈ میں ملازمت کی پیشکش بھی کی تھی مگر شائستہ نے کہاکہ وہ دہلی منتقل نہیں ہوں گی۔
انصاری کے ساتھ جہاں مارپیٹ کی گئی تھی وہاں سے محض 10کیلومیٹر کے فاصلے پر لوگوں میں پولیس اور میڈیا کے خلاف واضح برہمی دیکھی جارہی ہے۔
ایک دوکاندار (جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کی ہے) نے کہاکہ مذکورہ معاملہ میں واقعہ کے دو لوگ اس کی فیملی سے جیل میں ہیں۔اس نے کہاکہ ”نچلی عدالت نے ضمانت مسترد کردی۔ ہم ہائی کورٹ گئے“۔
اپنی ووٹ کی اہمیت پر مذکورہ شخص نے کہاکہ ”بی جے پی کی حمایت کرنے والی کئی تنظیموں نے راشن کے ساتھ ہماری مدد کی۔ کوئی بھی ہمیں نہیں دیکھ رہا ہے“۔
مذکورہ پولیس نے ابتداء میں گیارہ لوگوں کو تحویل میں رکھنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیاجس میں قتل نہیں تھا‘ اس کے علاوہ کہاگیاتھا کہ ہجوم کی منشاء انصاری کے قتل نہیں تھی او رپوسٹ مارٹم رپورٹ حتمی نہیں ہے۔
میڈیارپورٹس کے بعد تیرہ لوگوں پر قتل کا مقدمہ درج کیاگیاتھا