جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے واقعہ پر وزیراعظم نے خاموشی توڑ دی

,

   

خاطیوں کو سخت سزا پر زور، ای وی ایم پر سوال اٹھانا جمہوریت کی توہین ، صدارتی خطبہ پر مودی کا جواب

نئی دہلی ۔ 26 جون (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی نے جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے واقعہ پر بالآخر آج اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ پر انہیں کافی درد ہوا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خاطی کو سخت ترین سزاء دی جائے لیکن انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خواہ وہ جھارکھنڈ ہو کہ مغربی بنگال یا پھر کیرالا ملک بھر میں ہونے والے تشدد کے تمام واقعات کو یکساں طور پر دیکھا جانا چاہئے اور قانون کو اپنا کام کرنا چاہئے۔ راجیہ سبھا میں اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم مودی نے بہار میں ’دماغی بخار‘ کی وباء سے 130 بچوں کی اموات پر بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا اور اس واقعہ کو باعث شرم قرار دیا اور کہا کہ آزادی کے سات دہائیاں گذرنے کے باوجود اس قسم کے وباؤں کا جاری رہنا اور جان لیوا ثابت ہونا دراصل ’سب سے بڑی ناکامی‘ کا ثبوت ہے۔ وزیراعظم مودی نے راجیہ سبھا میں کانگریس کو اپنی سخت ترین تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی مثالی کامیابی اور ای وی ایم ووٹنگ مشینس کی صداقت و اعتبار پر سوال اٹھاتے ہوئے ملک کے رائے دہندوں کی توہین کی ہے۔ صدر جمہوریہ کے خطبہ پر تحریک تشکر پر بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ اپوزیشن جماعت کی ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے کیونکہ اس نے عوام کے دیئے فیصلہ پر سوال اٹھاتے ہوئے خود عوام کو الجھن میں ڈال دیا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہیکہ وہ اپنی شکست تسلیم نہیں کرتی اور اس کو دوسروںکی کامیابی ہضم نہیں ہوتی۔ مودی نے کہا کہ ’’اس قدر بڑے پیمانے پر عوامی تائید حاصل ہوئی۔ آپ (کانگریس) کہتے ہیں کہ تم (بی جے پی) جیت گئے لیکن یہ ملک ہار گیا… اگر کانگریس ہارتی ہے تو کیا یہ ملک کی شکست ہے؟ کیا کانگریس کا مطلب ملک ہے اور کیا ملک کا مطلب کانگریس ہے۔ ہٹ دھرمی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے‘‘۔ مودی نے کہا کہ کانگریس میں موجود ہمارے دوست کیا یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر وہ نہیں جیت سکے تو کیا ہندوستان کی جیت نہیں ہوئی ہے؟ کیا ہندوستان اور کانگریس پارٹی کیا دونوں ایک ہی ہیں؟ نہیں… ہرگز نہیں… یہ دونوں ایک نہیں ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہیکہ ہمارے انتخابی عمل اور جمہوریت کا احترام کیا جائے‘‘۔ کانگریس پارٹی کے دلائل اور بحث کے حوالہ سے انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ویاناڈ اور رائے بریلی کی نشستوں سے کانگریس کی فتح بھی کیا ملک کی شکست ہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ’’تنگ نظری اور کوتاہ خیالی کے سبب اگر چند افراد عوامی فیصلہ کو یہ کہتے ہوئے تسلیم نہیں کرتے کہ آپ تو الیکشن جیت گئے ہے لیکن ملک ہار گیا ہے تو یہ ہماری جمہوریت کی توہین سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ جھارکھنڈ میں پیش آئے حالیہ ہجومی تشدد کے واقعہ پر بھی انہیں کافی دکھ ہوا ہے اور سخت افسوس ہے۔ مودی نے کہا کہ ’’جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے واقعہ پر مجھے کافی دکھ پہنچا ہے۔ اس سے یقینا دوسروں کو بھی دکھ ہوا ہے لیکن راجیہ سبھا میں چند افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ جھارکھنڈ ہجومی تشدد کا اڈہ بن گیا ہے تو کیا یہ درست ہے؟ آخر کیوں وہ اس ریاست کی توہین کررہے ہیں۔ ہم میں کسی کو بھی ریاست جھارکھنڈ کی توہین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ مودی نے کہا کہ خواہ وہ جھارکھنڈ ہو کہ مغربی بنگال یا پھر کیرالا تشدد کے تمام واقعات کو یکساں اور ایک ہی انداز میں دیکھا جانا چاہئے اور تشدد کے خاطیوں اور سازشیوں کو یہ سبق ملنا چاہئے کہ سارا ملک اس مسئلہ پر ایک ہے۔