شطرنج کی چال ہماری، تو فکر نہ کرنا پیاری
تجھے جیت کے لے جائیں گے، دیکھے گی دنیا ساری
جھارکھنڈ میںانتخابی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں کیونکہ وہاں پہلے مرحلے میں13 نومبر کو ووٹ ڈالے جانے والے ہیں۔ جھارکھنڈ ایک ایسی ریاست ہے جس کے انتخابی نتائج کے اثرات پڑوسی ریاست بہار پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے مابین یہاںراست ٹکراؤ کی کیفیت ہے ۔ حالانکہ کانگریس کا موقف بھی مستحکم ہے اور آر جے ڈی بھی جے ایم ایم کے ساتھ انڈیا اتحاد میںشامل ہے تاہم بی جے پی کیلئے ریاست میں زیادہ حلیف جماعتیںدستیاب نہیں ہیں۔ جھارکھنڈ کے نتائج کی سیاسی اہمیت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی اور جے ایم ایم دونوں ہی کی جانب سے اپنی اپنی سرگرمیاں تیز کردی گئی ہیں۔ عوام کے ووٹ حاصل کرنے اور انہیںر جھانے میں کوئی کسر باقی نہیںر کھی جا رہی ہے ۔ بی جے پی ریاست میں جے ایم ایم کو اقتدار سے بیدخل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے تو جے ایم ایم کی جانب سے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے جدوجہد کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی نے ریاست کے انتخابات کی اہمیت کو بہت پہلے بھانپتے ہوئے اپنی تیاریاںشروع کردی تھیں۔ جہاںجے ایم ایم کے کچھ قائدین کو اپنی صفوں میںشامل کیا گیا وہیںچیف منسٹر ہیمنت سورین کو بھی ای ڈی کے مقدمہ میںماخوذ کرتے ہوئے انہیںجیل بھیجا گیا تھا ۔ بی جے پی اس طرح کے ہتھکنڈے تقریبا ہر اس ریاست میں اختیار کر رہی ہے جہاں اپوزیشن کی حکومتیں ہیں اور جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں یا ہور ہے ہیں۔ مرکز میں اپنے اقتدار کا استعمال کرتے ہوئے بی جے پی اس طرح کے حربے اختیار کر رہی ہے اور کسی بھی قیمت پر ریاستوں میں بھی اپنے اقتدار کو یقینی بنانا چاہتی ہے ۔ جس طرح لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو عوام کی توقع سے کم تائید ملی تھی اور اسے اپنے بل پر اقتدار حاصل نہیں ہوپایا تھا اس کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے ۔ اس کی مثال ہریانہ سے لی جاسکتی ہے جہاں کانگریس کا الزام ہے کہ انتخابی نتائج میں الٹ پھیر کرتے ہوئے بی جے پی نے اپنی کامیابی کا اعلان کیا تھا ۔
جہاں تک جھارکھنڈ کا سوال ہے تو یہ ریاست قبائلی طبقات پر زیادہ انحصار کرتی ہے ۔ یہاں جھارکھنڈ مکتی مورچہ ہمیشہ سے عوام کی پسند رہی ہے ۔ بی جے پی بھی یہاں اپنا غلبہ بنانے کی وقفہ وقفہ سے کوشش کرتی رہی ہے ۔ اسے کبھی کبھار کامیابی ملی ہے تو کبھی اسے ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اب جو انتخابات ہو رہے ہیں وہ بی جے پی کیلئے کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جھارکھنڈ کے نتائج کا پڑوسی بہار پراثر ہوسکتا ہے ۔ اگر جے ایم ایم کی قیادت میں انڈیا اتحاد کو جھارکھنڈ میں کامیابی ملتی تو اس سے بہار میں انڈیا اتحاد کے حوصلے بلندہونگے اور نتیش کمار کیلئے مشکلات کا آغاز ہوسکتا ہے ۔ بی جے پی کیلئے بہار میں نتیش کمار کا استحکام بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بی جے پی کی مرکزی حکومت کے استحکام کا دارو مدار اور انحصار نتیش کمار کی تائید پر ہے ۔ نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو مودی حکومت کی بیساکھی ہیں۔ نتیش کمار کے تعلق سے ہمیشہ سے یہ اندیشے لاحق رہتے ہیں کہ وہ اپنی کرسی بچانے کیلئے کسی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہیں اور کسی کا بھی دامن تھام سکتے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ برسوں میں ایک سے زائد مواقع پر انڈیا اتحاد اور این ڈی اے اتحاد کے ساتھ مل کر کام کیا ہے ۔ اگر بہار میںانڈیا اتحاد کو عوامی تائید کے اشارے ملتے ہیں تو ایک بار پھر نتیش کمار کی جانب سے پلٹی مارے جانے کے اندیشوں کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا اور اسی وجہ سے بی جے پی نے جھارکھنڈ پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔
بی جے پی کسی بھی ریاست کے انتخابات کے نتائج پر کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی کیونکہ اسے پتہ ہے کہ ریاستی اسمبلی کے نتائج بھی مرکزی حکومت کے استحکام پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اور ملک میں کسی بھی وقت از سر نو سیاسی صف بندیاں ہوسکتی ہیں۔ جہاں تک انڈیا اتحاد کا سوال ہے تو اس بار اس اتحاد میں اتفاق رائے پر زیادہ توجہ دی جار ہی ہے اور عوام سے رجوع ہونے میں بنیادی مسائل پر خاص توجہ دی جانی چاہئے ۔عوامی تائید کو ووٹوں میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی بناتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جھارکھنڈ کے انتخاب کو پڑوسی بہار کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پوری تندہی کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔