جھوٹ کا سہارا کیوں؟

   

بی جے پی کی سوشیل میڈیا ٹیم کی جانب سے اکثر و بیشتر ملک بھر میں جھوٹ پھیلانے کا کام کیا جاتا ہے ۔ ہر موضوع پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے تشہیر کرنے کو یہ لوگ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا یا پھر جو بات سرے سے ہوتی ہی نہیںہے اس کو دھڑلے اور دعوے کے ساتھ پیش کرنا ان کا وطیرہ بن گیا ہے ۔ کہیں کی کہیںاور کی ظاہر کرتے ہوئے پیش کرنا اور منافرت پھیلانا ان کا محبوب مشغلہ ہے ۔ ملک میں عوام کے درمیان نفاق پیدا کرنا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یکجہتی کو تار تار کرنا ان کا فرض اولین بن گیا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ ایک سے زائد مواقع پر ایک کا جھوٹ آشکار ہوگیا ہے اور عوام کے سامنے حقیقت کو پیش کردیا گیا ہے اس کے باوجود یہ لوگ اپنی حرکتوںسے باز آنے کو تیار نہیںہیں۔ اب تک ملک کے داخلی معاملات اور حالات میںاس کا سہارا لیا جاتا رہا ہے لیکن اب وزیر اعظم نریندرمودی کے دورہ امریکہ اور بین الاقوامی ملاقاتوںاور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کے مسئلہ پر بھی انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے صفحہ اول کی ایک تصویر فرـضی خبر کے ساتھ پیش کی اور دعوی کیا کہ اخبار مذکور نے نریندر مودی کو دنیا کیلئے آخری امید قرار دیا ہے ۔ اب اخبار مذکور کی جانب سے ایسی کسی خبر کی اشاعت کی تردید کردی گئی ہے ۔ یہ تردید صرف ایک خبر کی تردید نہیں بلکہ یہ ہمارے ملک کیلئے بھی ہزیمت کی بات ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ آج ہندوستان کو ساری دنیا میں ایک منفرد اور علیحدہ شناخت مل رہی ہے ۔ ساری دنیا ہندوستان سے توقعات وابستہ کئے ہوئے ہے اور ہمیںعالمی امور میں ایک مقام حاصل ہو رہا ہے ۔ ہمیںکسی فرضی کہانی یا جھوٹی تصاویر کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایسی تصاویر اور جھوٹی تشہیر کے ذریعہ ہم اپنے ملک یا اپنے لیڈر کی ہزیمت کا ہی ذریعہ بن رہے ہیں۔ ایسی حرکتیں ضرورت سے زیادہ چاپلوسی کی ذہنیت اور تلوے چاٹنے کی کوشش کے مترادف ہی کہی جاسکتی ہے ۔ ہندوستان میں ایسی حرکتیں عام ہوتی جا رہی ہیں اور بی جے پی کا سوشیل میڈیا سیل شائد اسی لئے تشکیل بھی دیا گیا ہو لیکن عالمی اور بین الاقوامی سطح پر اس سے ملک کا وقار مجروح ہوا ہے ۔
اندرون ملک بھی ایسے بے شمار مواقع آئے ہیں جب بی جے پی سوشیل میڈیا ونگ کی جانب سے جھوٹی تشہیر کی گئی ۔ تصاویر کو اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ۔ تصویروں کو ایڈٹ کرتے ہوئے نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ۔ اندرون ملک کئی گوشوںسے ایسی تصاویر اور جھوٹ کا قلع قمع کیا گیا ہے ۔ بے شمار مواقع پر سوشیل میڈیا نے بی جے پی سوشیل میڈیا ونگ کو بے نقاب کیا ہے اور ان کے جھوٹ کا پردہ فاش کردیا گیا ہے لیکن اب بین الاقوامی سطح پر ایسی حرکت کی گئی ہے جس سے ہمارے ملک کا وقار متاثر اور مجروح ہوا ہے ۔ ویسے بھی ہندوستان بھر میں جو واقعات پیش آ رہے ہیں ان پرعالمی میڈیا کی جانب سے تنقیدیں کی جا رہی ہیں۔ ناقدانہ تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ ملک کے چاپلوس ٹی وی چینلوں کے زر خرید اینکروں کی حرکتوں کی وجہ سے پہلے ہی ملک کی ہتک ہونے لگی ہے ۔ ہمارے ٹی وی اینکروں ( جو خود کو جرنلسٹ سمجھتے ہیں ) کی وجہ سے ہمارے ملک کا نام متاثر ہو رہا ہے اور اب خود ملک کے وزیر اعظم کی تصویر استعمال کرتے ہوئے سوشیل میڈیا پر جھوٹے دعوے کرنے کی کوشش کی گئی جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندرمودی نے امریکہ کا دورہ کیا ۔ امریکی اخبارات اور میڈیا میں ان کی مناسب تشہیر بھی ہوئی ہے ۔ اس کے باوجود ایک عالمی سطح کے اخبار کے ٹائیٹل کا سہارا لیتے ہوئے ایک جھوٹا دعوی کیا گیا اور جھوٹی تشہیر کرکے چاپلوسی کی مثال قائم کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی ۔
ملک کے اندر کچھ گوشوں کے دعوے ہوتے ہیںتو کچھ ان کی تردید کرتے ہیں۔ یہ ہمارا اپنا ملک کا داخلی مسئلہ ہوتا ہے اور ہم اس کو اپنے طور پر سمجھ بھی لیتے ہیںلیکن بین الاقوامی سطح پر اس طرح کی حرکت سے ملک کا وقار متاثر ہوا ہے ۔ ایسی حرکتوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود سوشیل میڈیا ونگ کو کنٹرول کرنے والے ذمہ داران کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے کامیاب نہیں ہوا جاسکتا ۔ کئی گوشوںسے باریک بینی سے ہر شئے کی تنقیح ہوتی ہے ۔ سیاسی اور جماعتی اساس پر کچھ دعوے ہوں تو الگ بات ہے لیکن ملک کی نیک نامی اور ملک کے وقار کے مسئلہ پر اس طرح کی اوچھی حرکتوں کی اور جھوٹی تشہیر کی ہرگز ضرورت نہیںہے اور ایسی حرکتوں سے اجتناب کیا جانا چاہئے ۔