سیاست میں اکثر و بیشتر جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ عوام کو گمراہ کرنے کیلئے غلط دعوے کئے جاتے ہیں۔ غلط پروپگنڈہ کیا جاتا ہے ۔ غلط تشہیر کی جاتی ہے اور عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے انہیںسبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ خود کو پارسا اور سب میں بہتر بنانا ہر سیاستدان کا وطیرہ ہوتا ہے ۔ ہندوستان کی سیاست بھی اس سے مستثنی نہیںہے ۔ یہاں بھی جھوٹ بڑی تیزی سے آگے بڑھتا ہے اور عوام کے درمیان پھیل کر سچائی کو گہن لگا دیتا ہے ۔ہمارے وزیر اعظم نریندرمودی نے کل بی جے پی کے یوم تاسیس کے موقع پر پارٹی کارکنوںسے خطاب کرتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ زرعی قوانین سے لے کر شہریت ترمیمی قانون تک ہر مسئلہ پر اپوزیشن کی جانب سے جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے ۔ دوسری جانب اپوزیشن کا یہ الزام ہے کہ حکومت ہر مسئلہ پر غلط اور جھوٹ بیانی سے کام لے رہی ہے ۔ یہ تو ایک عام روایت ہی ہے کہ ہر کوئی جھوٹ پھیلا رہا ہے اور اس کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک حکومت کے اور اپوزیشن کے دعووں کی بات ہے تو اس تعلق سے ملک کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ کون کس تعلق سے جھوٹ پھیلا رہا ہے ۔ جہاں تک زرعی قوانین کی بات ہے تو ملک کے کسان خود سڑکوںپر اتر آئے ہیںاور تقریبا چار ماہ سے وہ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ان کا شبہ ہے کہ جو قوانین مرکز نے تیار کئے ہیں ان کے نتیجہ میںکسانوں کے مفادات متاثر ہونگے اور ان کی اراضیات پر وہ خود ہی اختیارات سے محروم ہوجائیں گے ۔ ان کو اپنی فصلوں کی اقل ترین امدادی قیمت نہیں ملے گی ۔ انہیں کارپوریٹ شعبہ کا غلام بنایا جا رہا ہے ۔ حکومت حالانکہ ان الزامات سے انکار کرتی ہے لیکن کسانوں کے شبہات کو دور نہیں کیا جا رہا ہے ۔حکومت کے الزامات کو درست مان بھی لیا جائے کہ اپوزیشن افواہیں پھیلا رہی ہے تب بھی یہ حکومت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری کے شبہات و خدشات کو دور کرے اور خاص طور پر کسانوں کے شبہات کو دور کرنا تو حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے ۔
اسی طرح شہریت ترمیمی قانون کے تعلق سے بھی جو اندیشے ہیں وہ بالکل ہی بے بنیاد نہیںہیں۔ اس تعلق سے خود سرکاری حلقوںاور برسر اقتدار جماعت کے قائدین کے تعلق سے سماج کے ایک مخصوص طبقہ میںڈر وخوف پیدا کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے وزیر داخلہ خود بارہا یہ کہتے ہیں کہ پہلے سی اے اے لاگو کیا جائیگا اس کے بعد این آر سی پر عمل ہوگا ۔ دوسری جانب وزیر اعظم کہتے ہیںک ہ این آر سی پر کوئی تبادلہ خیال تک نہیںہوا ہے ۔ اب اس میںکون جھوٹ پھیلا رہا ہے اس تعلق سے ملک کے عوام خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔ حکومت کیدو اہم ذمہ دار ہیں اوردونوںہی اس مسئلہ پر متضاداور مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ اسی طرح وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں یہ دعوی کیا تھا کہ چین نے ہندوستان کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا ہے ۔ اس کے برخلاف خود ٹی وی چینلوں نے کئی ذرائع سے یہ تصاویر اور ویڈیوز بھی پیش کردئے کہ چین ہندوستان کی سرزمین میں گھس آیا ہے ۔ یہاںاس نے باضابطہ تعمیرات کی ہیں۔ ہیلی پیڈ اور رن وے بھی تعمیر کرلیا ہے ۔ ہندوستان کے علاقہ میںچین اپنی فوجی طاقت کو مجتمع کر رہا ہے اور سرحدات کی مسلسل خلاف ورزی کی جا رہی ہے ۔ اس کے باوجود حکومت اس حقیقت کو قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ یہ بھی ایک طرح کا جھوٹ ہی ہے اور ملک کے عوام اس بات کا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ملک کی سرحدات جیسے انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس مسئلہ پر کون جھوٹ پھیلا رہا ہے اور اس جھوٹ کے پھیلانے کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں۔
ملک میں کالا دھن واپس لانے کی بات ہوئی تھی جو غلط ثابت ہوئی ‘ سالانہ دو کروڑ نوجوانوں کو روزگار اور ملازمتیںفراہم کرنے کا دعوی کیا گیا تھا جو جھوٹا ثابت ہوا ‘ مہنگائی پر قابو پانے کا تیقن دیا گیا تھا جو پورا نہیںہوا اور ایسے کئی وعدے ہیںجنہیںجملوں میں بیان کرتے ہوئے فراموش کردیا گیا ۔ یہ سارے جھوٹ کے زمرہ ہی میں آتے ہیں اور اس کا فیصلہ عوام کرسکتے ہیں کہ یہ جھوٹ کس نے پھیلایا تھا ۔ آج بھی ملک کی سیاست میں جھوٹ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ ایک مخصوص انداز اختیار کرتے ہوئے غلط کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس تعلق سے عوام ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اپوزیشن کی صفوںمیںہو یا اقتدار کے گلیاروں میں ہو کون اور کس طرح سے جھوٹ پھیلار ہا ہے ۔
