جی ایچ ایم سی میں بلدیات کا انضمام

   

واقف کہاں زمانہ ہماری اُڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
تلنگانہ حکومت نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن میں اطراف کی 27 بلدیات کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریاستی کابینہ نے اس کی منظوری بھی دیدی ہے ۔ حکومت سے آرڈیننس جاری ہوچکا ہے اور اسے گورنر کی بھی منظوری مل چکی ہے ۔ اس طرح سے یہ عمل تیزی سے پیشرفت کرنے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے اور عہدیداروں نے بلدیات کو ضم کرنے کا عمل شروع بھی کردیا ہے ۔ اطراف کی بلدیت کے ریکارڈز وغیرہ کو حاصل کیا جا رہا ہے اور دیگر امور کو مکمل کرنے کی کوششیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ شہر کی تیز رفتار ترقی کو یقینی بنانے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایک ہی کارپوریشن رہے گی یا پھر اسے دو یا تین کارپوریشنس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ جس طرح سے حکومت تیز رفتار سے کام انجام دے رہی ہے ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ کام جلد مکمل ہو جائے گا ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف بلدیات کو ضم کرتے ہوئے نئے انداز میں کام کرنے کی بجائے پہلے ہی سے جو گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے حدود ہیں نہ صرف ان کی بلکہ جو بلدیات ضز کی جا رہی ہیں ان کی ترقی کیلئے بھی جامع منصوبے بنائے جائیں اور فنڈز فراہم کرتے ہوئے ان کی ترقی اور انفرا اسٹرکچر کی فراہمی پر توجہ دی جائے ۔ شہر حیدرآباد تیزی سے وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ شہری حدود میں حالیہ برسوں میں کافی اضافہ ہوا ہے اور جب نئی 27 بلدیات کو ضم کیا جائے گا تو شہری حدود مزید بڑھ جائیں گے ۔ ایسے میں ترقیاتی سرگرمیوںپر توجہ دینے کی ضرورت بھی زیادہ ہوگی اورا س کیلئے حکومت کو جامع منصوبہ بندی کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ شہری حدود کے رقبہ میں جب اضافہ ہوگا تو اس کی ضروریات اور تقاضوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے مطابق منصوبے پہلے سے تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی رکاوٹ یا تاخیر کے بغیر ان ضروریات کی تکمیل کی جاسکے اور شہر کی ترقی کو حقیقی شکل دی جاسکے ۔ جی ایچ ایم سی کے اطراف کی بلدیات میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں اس انضمام کی وجہ سے تیزی آئے گی ۔
یہ حقیقت ہے کہ اطراف کی بلدیات کی صورتحال اتنی بہتر نہیں ہے اور وہاں اتنی سہولیات دستیاب نہیں ہیں جتنی گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے حدود میں موجود ہیں ۔ اس اعتبار سے ان بلدیات کو حیدرآباد کے مقابل ترقی دینے کیلئے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ ان بلدیات کے عوام میں یہ شبہات پائے جاتے ہیں کہ شہری حدود میں شمولیت کے بعد ان پر محاصل اور ٹیکس کا بوجھ بڑھ جائے گا ۔ اس تعلق سے حکومت کو متوازن رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ ایک ہی دم عوام پر زائد مالی بوجھ عائد ہونے نہ پائے ۔ اس کے علاوہ انفرا اسٹرکچر ایک ایسا شعبہ ہے جو سب سے زیادہ توجہ کا طالب ہوگا ۔ کارپوریٹ اور تجارتی ادارے ان بلدیات پر توجہ دیتے ہوئے یہاں انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کیلئے آگے آسکتے ہیں اور حکومت کو ان اداروں کو کچھ مراعات بھی دینی ہونگی ۔ تاہم اس بات کا خیال رکھا جانا اہمیت کا حامل ہے کہ کارپوریٹس کو مراعات دیتے ہوئے مقامی عوام پر کسی طرح کا بوجھ عائد ہونے نہ پائے اور نہ ہی محاصل میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے ۔ بالکل نچلی سطح سے سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے ایسے منصوبے تیار کرنے ہونگے جن کی مدد سے کام کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھ سکے اور عوام کو مسائل کا بھی زیادہ سامنا کرنا نہ پڑے ۔ عملی طور پر اقدامات کا آغاز کرنے سے قبل حکومت اور دیگر تمام متعلقہ محکمہ جات کو اپنے تمام منصوبوں کا بلیو پرنٹ تیار کرلینا چاہئے اور اس پر مرحلہ وار انداز میں پیشرفت کی جانی چاہئے ۔
شہر حیدرآباد کو عالمی معیار کا شہر بنانے کے وعدے حکومتوں کی جانب سے لگاتار کئے جاتے ہیں ۔ تاہم یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ کافی ترقی کرنے کے باوجود شہر میں آج بھی کئی مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ان مسائل کو حل کرتے ہوئے جو نئے منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں ان پر عمل کیا جاسکتا ہے تاہم علاقائی توازن کی برقراری پر توجہ مرکوز رکھی جانی چاہئے ۔ اراضی قیمتوں کے معاملے میں بھی احتیاط سے پیشرفت کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ عوام پر اضافی بوجھ نہ پڑ جائے ۔ بحیثیت مجموعی بلدیات کے انضمام کے بعد حکومت کی ذمہ داریوں میں اضـافہ ہوگا اور ان کو مکمل احتیاط سے پورا کیا جانا چاہئے ۔