جے این یو کا دورہ دپیکا پڈوکون کو سلام!

   

برکھا دت
ہندوستان بھر میں جاری طلبہ کے احتجاجوں اور ہمارے بعض بہترین کیمپسوں میں جو ہنگامہ دیکھنے میں آرہا ہے، اس کے بارے میں مباحث کی آپ چاہے کسی بھی طرف ہوں، لیکن آپ اُس غیرمعمولی ہمت کو نظرانداز نہیں کرسکتے جس کا دپیکا پڈوکون نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کیمپس پہنچ کر مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے آئشی گھوش کو اپنے ہاتھ جوڑ کر پورے احترام سے نمستے کیا، جو جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کی نوجوان صدر ہے، جس کی کھوپڑی سلاخ کی مار سے لگ بھگ ٹوٹ ہی گئی ہے۔ دپیکا نے اپنی اڈسٹری کی ماضی کی سردمہری کی روش توڑتے ہوئے اہم تبدیلی لائی ہے۔ تاہم، وہ لب کشائی کرنے والی اولین نہیں ہیں۔ دیگر نمایاں اسٹارس سونم کپور، عالیہ بھٹ، تاپسی پنو، سوارا بھاسکر، ریچا چڈھا، فرحان اختر، انوراگ کیشپ، انوبھو سنہا اور ذیشان ایوب یہ سب نمایاں نسلی تبدیلی کے نقیب بنے ہیں۔ لیکن دپیکا نے بلاشبہ نہایت ڈرامائی اور جوکھم بھری خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر آپ اس تعلق سے کچھ بدترین کہنا چاہیں تو یہی کہ دپیکا کا انفردی جدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جے این یو میں پہنچنا اُن کی نئی فلم چھپاک کیلئے پروموشنل اسٹنٹ ہے، لیکن آپ کو کوئی آئیڈیا نہیں ہے کہ کس طرح فلم انڈسٹری کے پبلک ریلیشنس ماسٹرس اور برانڈ منیجرس سوچتے ہیں۔
درحقیقت، چند روز قبل مگر جے این یو میںنے پُرتشدد حملہ سے قبل، میں دپیکا اور فلم کی ڈائریکٹر میگھنا گلزار سے جئے پور میں ایک ایونٹ میں ملاقات کی تھی۔ وہ نصف درجن مشیروں اور تشہیری منیجرس سے گھرے تھے۔ جب ہم پیچھے کی سمت بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، میگھنا اور دپیکا دونوں نے مجھ سے نئی شہریت قانون سازی اور مجوزہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کے بارے میں تنازع کے تعلق سے پُرفکر اور سنجیدہ سوالات کئے۔ ان کے متعلقین فکرمند ہیں کہ یہ موضوع ہماری رسمی گفتگو میں آئے گا۔ درحقیقت، دپیکا جو اس فلم کی پروڈیوسر بھی ہیں، اور میگھنا کو نوجوان سامعین سے یہ سوالات کا سامنا کرتے ہوئے کوئی پریشانی نہ ہوئی۔ ان کے اطراف موجود ہر کوئی مثبت طور پر احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ دپیکا نے مجھ سے بات چیت میں ایک ریمارک کیا کہ ایکٹرس نرم نشانہ ہیں۔ انھوں نے تعجب کیا کہ کیوں ہم نے یکساں جوابدہی کا مطالبہ ہمارے انڈسٹری لیڈرس یا ہمارے اسپورٹس اسٹارس یا دیگر نامور شخصیتوں سے نہیں کیا ہے؟
تب سے جو کچھ ہوا، دپیکا کے نکتہ کی توثیق کرتا ہے اور اس حقیقت کو تقویت دیتا ہے کہ انھیں جے این یو جانے کی ضرورت کے تعلق سے اُن سے تعلق رکھنے والوں کو سمجھانے میں ضرور کافی مشکل ہوئی ہوگی۔ وہ آپ کے قیاس سے کہیں زیادہ جوکھم سے بچنے اور اپنے سوشل اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی فکر کرتے ہیں۔
جزو ی طور پر سارے ہندوستان میں تبدیلی لانے کا کریڈٹ اسٹوڈنٹس کو ملنا چاہئے جنھوں نے سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر عوام پر اپنی نوعیت کا منفرد اخلاقی دباؤ پیدا کیا ہے۔ اُن کی پُرامیدی، دستوری اقدار کیلئے جدوجہد میں آگے بڑھنے اُن کی تصوریت، قوم پرستی کی علامتوں کو فخر سے گلے لگانا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے جے این یو تک جس تشدد کا انھیں سامنا ہوا، اس کے پریشان کن ویڈیو گرافی کئے گئے امیجوں کا سامنا کرنا… یہ تمام غیرجانبداری کو لگ بھگ ناممکن بناتے ہیں، حتیٰ کہ اُن کیلئے بھی جو خود کو غیرسیاسی سمجھتے ہیں۔ لیکن جہاں اسٹوڈنٹس نے احتجاجوں کو لگ بھگ پُرامن رکھا، وہیں دپیکا کی موجودگی نے کئی دیگر کو خاموشی توڑنے میں مدد کی ہے۔ اُن کے دورے کے بعد سے دیگر جیسے سنیل شٹی، ورون دھون اور سنی لیون بھی اس موضوع پر اظہار خیال میں کود پڑے ہیں۔
جیسے دپیکا نے جے این یو کا دورہ کیا، اُن کی نئی ریلیز کا بائیکاٹ کرنے کی اپیلیں ہونے لگیں۔ حکومت کے بعض وزراء نے انھیں گھٹیا زبان میں نشانہ بنایا۔ دپیکا کو حکومت سے جڑے دیگر اشتہاری مہمات سے ہٹایا بھی جاسکتا ہے۔ اور بھیانک، جنسی باتوں پر مبنی آن لائن ٹرولنگ لگاتار جاری ہے۔ اگر کسی وجہ سے اُن کی فلم اچھا بزنس نہ کرے تو آپ شاید اُن متعدد نام نہاد بہی خواہوں کی گنتی بھی کرسکیں گے جو استدلال پیش کریں گے کہ اس کا تعلق جے این یو میں اُن کی موجودگی سے ہے۔ پھر وہ انھیں ہمیشہ کیلئے اس سے پیچھا چھڑا لینے کیلئے کہیں گے۔ لیکن دپیکا نے اس سے پہلے ہی خاموش مگر زبردست طاقت کا مظاہرہ کردیا ہے۔ ایسڈ حملے میں بچ جانے کے بعد خود کو تبدیل کرنے کا فیصلہ، ایسی صنعت میں جہاں اکثر فیمیل ایکٹرس کو تیس سال سے زائد عمر پر جبری طور پر سبکدوش کردیا جاتا ہے، دپیکا کا موقف مضبوط طاقت کا مظہر ہے۔ دپیکا نے مجھے بتایا کہ ایک سرکردہ مرد ڈائریکٹر نے انھیں قطعی مشورہ دیا تھا کہ فلم چھپاک قبول نہ کریں کیونکہ وہ اُس طرح ’’اچھی نہیں دکھیں گی‘‘ جس طرح انڈسٹری خوبصورتی کی تشریح کرتی ہے۔
چند سال قبل دپیکا ایک انٹرویو میں مجھ سے رجوع ہوئی تھی اور کافی نجی اور ذہنی مایوسی کے خلاف تکلیف دہ جدوجہد کے تعلق سے بات کی۔ تب بھی، میں نے دپیکا سے پوچھا تھا کہ آیا وہ ممکنہ مضمرات سے خائف نہیں؟ لیکن وہ اپنا ذہن بنا چکی تھی۔ اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دپیکا کی پُرگوئی اُن کی برادری کے اکثر سرکردہ مرد ایکٹرس کے مقابل بالکلیہ برعکس ہے۔
خاص طور پر عامر خان اور شاہ رخ خان ظاہر طور پر خاموش ہیں جو شاید اس وجہ سے ہے کہ چند سال قبل مسلمانوں کی ماب لنچنگ جیسے مسائل پر اُن کی راست گوئی انھیں آن لائن مہنگی پڑی تھی۔ میں نے اسی طرح شاہ رخ سے انٹرویو لیا جہاں انھوں نے دادری لنچنگ کے تعلق سے بے باکی سے کہا۔ بے شک انھیں پوری شرارت کے ساتھ تنگ کیا گیا۔ چند ماہ بعد اُن کی نئی ریلیز باکس آفس پر ناکام ہوئی۔ بعدازاں میں نے دیکھا کہ اُن کے منیجرس نے مانا کہ میرا انٹرویو اس فلاپ کیلئے ایک وجہ ہے۔ بس اسی طرح بالی ووڈ میں ذہن اور خیالات اور فکریں کنٹرول اور گھٹائے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ دپیکا پڈوکون نے غیرمعمولی راست بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔