گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد میں شامل واحد بڑی جماعت جنتادل یو میں ایسا لگتا ہے کہ کچھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کے اثرات این ڈی اے پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر اس صورتحال میں جبکہ ارونا چل پردیش میں جے ڈی یو کے چھ ارکان اسمبلی کو بی جے پی نے اپنی صفوں میں شامل کرلیا ہے ۔ حالانکہ جے ڈی یو اور بی جے پی دونوں حلیف جماعتیں ہیں اور وہ بہار میں اقتدار میں شریک بھی ہیں ۔ کم نشستیں رکھنے کے باوجود بھی بی جے پی نے نتیش کمار کو بہار کے وزارت اعلی کی کرسی چھوڑ دی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اروناچل پردیش میں پارٹی کے ارکان اسمبلی کو اپنی صفوں میں شامل کرتے ہوئے بی جے پی نے اس کی قیمت بھی وصول کرنی شروع کردی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ نتیش کمار بی جے پی کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے گریز کیا جاسکتا تھا ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بہار میں خود بھی این ڈی اے اتحاد میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اور تناو و کشیدگی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے نتیش کمار نے جنتادل یو کے قومی صدر کے عہدہ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور انہوں نے آر سی پی سنگھ کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نتیش کمار کا یہ اقدام خود بہار میں بھی این ڈی اے اتحاد کیلئے ٹھیک نہیں ہے اور اس سے اشارے ملتے ہیں کہ بہار اتحاد میں بھی حالات میں تبدیلی آسکتی ہے ۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی خود بہار میں بھی جے ڈی یو میں پھوٹ ڈالنے سے گریز نہیں کرے گی اور وہ نتیش کمار کی جگہ پارٹی کے کسی لیڈر کو چیف منسٹر بنانے کی حکمت عملی پر کام شروع کرچکی ہے ۔ نتیش کمار کو شائد اسی صورتحال کا اندازہ ہوگیا ہے اور انہوں نے خود کو بری الذمہ کرنے کیلئے پارٹی صدارت سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور آر سی پی سنگھ کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے ۔ جے ڈی یو پر نتیش کمار کی جو گرفت تھی وہ کسی اور لیڈر کی ہونی ممکن نہیں ہے اور ایسے میں یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ جے ڈی یو اور بی جے پی کے تعلقات میں دراڑ کسی بھی وقت ممکن ہے ۔
جب دونوں جماعتوں کے تعلقات میں بگاڑ کی کیفیت پیدا ہوگی تو بہار کی حکومت کے استحکام پر بھی سوال پیدا ہوسکتا ہے او ر بی جے پی اس ساری صورتحال سے عملا لا تعلق ہوتے ہوئے پس پردہ مستقبل کیلئے میدان تیار کر رہی ہے ۔ سیاسی بساط پر اپنی چالیں چلتے ہوئے پارٹی کے کسی لیڈر کو چیف منسٹر بنانے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ جس طرح بی جے پی نے مرکز میں اپنی حکومت کی پہلی معیاد میں کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اس طرح اب وہ خاموشی کے ساتھ اپوزیشن مکت بھارت کے مقصد کوپورا کرنے کی سمت پیشرفت کر رہی ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ جتنی بھی حلیف جماعتیں رہی ہیں یکے بعد دیگرے انہیں نشانہ بناتے ہوئے عملا ختم کیا جا رہا ہے ۔ بی جے پی سے ماضی میں اتحاد کرنے والی جماعتوں کا وجود ہی خطرہ میں پڑتا جا رہا ہے اور یہ جماعتیں اب اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہوگئی ہیں۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا وہ واحد جماعت یہ جو بی جے پی کو زک پہونچاتے ہوئے ریاست میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ نتیش کمار کو بھی بی جے پی صرف مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات کی تکمیل تک ساتھ رکھے گی ۔ اگر وہاں ممتابنرجی کامیاب ہوجاتی ہیں تو نتیش کمار کا مستقبل محفوظ رہ سکتا ہے ۔ اگر بی جے پی بنگال میں اقتدار حاصل کرلیتی ہے تو پھر اسے بہار میں بھی جے ڈی یو کے ارکان اسمبلی کو خریدنا زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا اور وہ وہاں بھی پارٹی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ۔
نتیش کمار نے چیف منسٹرکی کسی حاصل کرنے کیلئے جس طرح سے سیاسی قلابازیاں کھائی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بی جے پی مستقبل میں مزید کوئی خطرہ مول لینے کی بجائے نتیش کمار کے سیاسی قد کو ہی کم کردینے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔ نتیش کمار محض وزارت اعلی کی کرسی کیلئے اپنی پارٹی کے وجود کو ہی خطرہ میں ڈالتے نظر آ رہے ہیں۔ اب جو حالات پیدا ہو رہے ہیں کم از کم ان سے تو یہی اشارہ ملتا ہے ۔ اب جبکہ نتیش کمار نے جے ڈی یو کی صدارت چھوڑ دی ہے اور آر سی پی سنگھ کو ذمہ داری سونپ دی ہے تو انہیں پارٹی کے مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئے صدر کی رہنمائی کرنی چاہئے ۔ بی جے پی سے دوستی کی قیمت پر جے ڈی یو کے مستقبل کو غیر یقینی صورتحال کا شکار کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔
