حالات ِحاضرہ

   

کے این واصف

واٹس ایپ (WhatsApp) کی دنیا میں افواہوں کا گشت اب ایک عام بات ہوگئی جیسے رشوت خوری ہمارے سماج میں گناہ تصور نہیں ہوتا۔ اسی طرح افواہ اُڑانا اور افواہیں پھیلانے کو بھی سماج میں قبولیت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ جب واٹس ایپ پر کوئی افواہ اُڑتی ہے تو لوگ اسے جوق در جوق ایسے آگے بڑھاتے ہیں جیسے یہ کوئی کارِخیر ہے۔ لیکن ہم اس کالم کے ذریعہ حتی الامکان کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اپنے قارئین کو خلیجی این آر آئیز سے متعلق اڑھنے والی افواہ کی حقیقت سے واقف کرائیں۔ افواہوں کو حکومتیں یا ارباب مجاز کا جواب یا نکتہ نظر آپ کے سامنے رکھیںکیونکہ یہاں ہر بڑی افواہ کے بعد متعلقہ ادارے تردید کی قینچی سے ایسے افواہ کے پر کترتے ہیں۔
ان دنوں واٹس ایپ یونیورسٹی میں این آر آئیز سے متعلق دو تازہ افواہیں یہ ہیں کہ Value Added Tax (VAT) سعودی عرب کے سارفین کے لیے 5 فیصد سے 10 فیصد ہونے والا ہے۔ دوسری افواہ فیملی فیس میں اضافہ ہونے کی ہے۔ واضح رہے کہ تین سال قبل یہ فیملی فیس فی کس 100 ریال ماہانہ کے حساب سے شروع ہوئی تھی اور اس میں سالانہ 100 ریال ماہانہ کا اضافہ ہورہا تھا اور اس اضافہ کی حد 400 ریال تک بتائی گئی تھی لیکن اب یہ افواہ گرم ہے کہ اب فیملی ٹیکس میں مزید اضافے کی تجویز زیر غور ہے۔

جہاں تک VAT میں اضافے کا تعلق ہے اس سے متعلق سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے کہا ہے کہ سال 2020ء میں VAT میں اضافے کا امکان نہیں ہے۔ سعودی عرب کی قومی مالیاتی پالیسی بہترین انداز میں مرتب کی گئی ہے ۔
سعودی عرب کے پروگرام ’’ویژن 2030‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے مقررہ اہداف کے حصول کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ مقامی اخبارات کے مطابق ریاض میں ’’یورومنی السعودیہ 2019ء‘‘ کے عنوان کے تحت سمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملوں سے آرامکو کا بجٹ متاثر ہوگا نہ ہی ملک کی اقتصادی اور مالی حالت پر کسی قسم کے اثرات مرتب ہوں گے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ملک کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ بجٹ خسارے میں بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ برس کے مقابلے 2019ء میں پیٹرول کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی میں بھی 14.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ رواں سال 2.9 سے 3 فیصد تک کا اضافہ متوقع ہے۔ وزیر خزانہ الجدعان نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی حکومت مستقبل کے ویژن 2030ء کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اہداف کے حصول کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ قومی بجٹ 2019ء کے حوالے سے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس نجی شعبے کے تعاون سے معاشی اعتبار سے مرتب کیے جانے والے اہداف کافی حد تک حاصل کرلیے گئے ہیں۔ اس بارے میں نجی شعبے میں خدمات کا معیار کافی بلند ہے جو نہایت خوش آئند امر ہے۔ VAT میں اضافے سے متعلق افواہ میں بے شک کوئی تاریخ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مگر وزیر خزانہ کے بیان کی ابتدائی سطور میں انہوں نے کہا کہ ’’سال 2020ء میں ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (VAT) میں اضافے کا امکان نہیں ہے۔ یعنی انہوں نے کہا کہ مستقبل یا آنے والے برسوں میں اضافے کا امکان نہیں ہے۔

مملکت کی معیشت کا بہتری کی طرف گامزن ہونے کا ذکر بیان بے محل نہیں کیوں کہ مملکت کی خوشحالی اور معاشی ترقی میں اس ملک میں بسے غیر ملکی باشندوں کی خوشحالی بھی مضمر ہے۔ تیل تنصیبات پر حملے کے بعد بھی یہ قیاس آرائیاں تھیں کہ اس کا اثر ملک کی معیشت پر پڑے گا جس کا جواب وزیر خزانہ نے اپنے بیان میں دے دیا۔ اسی تقریب میں وزیر موصوف نے سعودی منڈیوں کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سعودی مارکٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 76 ارب ریال کی سرمایہ کاری کی۔ مملکت میں روان برس کے دوران 18 نئی عالمی کمپنیوں کو تجارتی لائیسنس جاری کئے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ جواب ہمت افزاء ہے اور مملکت میں نئی عالمی کمپنیوں کا لائیسنس حاصل کرنا ایک خوش آئند بات ہے۔ اس سے مقامی اور خارجی باشندوں کو روزگار حاصل ہونے کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ نئی کمپنیوں کے قیام سے مجموعی طور پر معیشت بہتر ہوگی اور مارکٹ میں پیسے کی ریل پیل ہوگی۔ بیرونی سرمایہ کاری سے نئی کمپنیوں کا قائم ہونا روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کی طمانیت ہے۔ سعودی عرب میں بیرونی سرمایہ کاری آسانی سے آتی ہے، اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ان میں سب سے اہم اس ملک کا پرامن ماحول ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ لگانے میں جھجھک محسوس نہیں ہوتی۔ صنعتی یونٹس کے قیام کے لیے بجلی پانی کی سربراہی، کارخانوں کا آسانی سے حاصل ہونا، مال کی نقل حمل کے لیے بہترین سہولتوں کا دستیاب رہنا، بہت زیادہ ٹیکسس کا نہ ہونا وغیرہ جیسی سہولتوں کے حاصل ہونے کے ساتھ اگر ملک میں امن عامہ کی صورتحال بہتر نہ ہوتو صنعتکار اپنا سرمایہ مشغول کرنے کے لیے دو بار سوچتا ہے جو کوئی ملک اپنے ملک میں بیرونی سرمایہ کا خواہشمند ہو تو اسے سب سے پہلے ملک میں امن عامہ کی بحالی کو یقینی بنانا چاہئے۔
جہاں تک روزگار کی فراہمی کا تعلق ہے سعودی عرب غیر ملکی باشندوں کو روزگار فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جو دنیا میں بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کے ایک اعلان سے ہوتی ہے کہ سعودی عرب 2019ء کے دوران غیر ملکیوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2015ء کے دوران سعودی عرب میں برسر روزگار غیر ملکیوں کی تعداد 10.8 ملین تھی۔ یہ 2019ء میں بڑھ کر 13.12ملین تک پہنچ گئی۔ پوری دنیا میں غیر ملکیوں کو روزگار کے سب سے زیادہ مواقع فراہم کرنے والا ملک امریکہ ہے جہاں 50.7 ملین غیر ملکی ملازمت کررہے ہیں۔ امریکہ کے بعد جرمنی کا نمبر ہے جہاں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 13 ملین غیر ملکی موجود ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسے لوگ جو کسی غیر ملک میں ایک برس سے زیادہ عرصے تک بہ رضا یا رغبت یا مجبوراً یا خلاف قانون رہائش پذیر رہ چکے ہیں ان میں سے 50 فیصد 10 ممالک میں رہ رہے ہیں۔ امریکہ، جرمنی، سعودی عرب، وفاقی روس، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، فرانس، کینیڈا اور اٹلی وہ ممالک ہیں جہاں نقل مکانی کرنے والے 50 فیصد غیر ملکی سکونت پذیر ہیں۔ سعودی عرب میں بھی غیر ملکی باشندوں نے 1970ء کی ابتداء سے روزگار کے سلسلے میں نقل مکانی کرنے اور بسنا شروع کیا۔

پچھلے 50 سالوں میں دنیا کے مختلف ممالک سے کروڑہا افراد یہاں آئے، ملازمتیں کیں اور اپنے وطن لوٹ گئے اور ان کی جگہ نئے افراد کے آنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لیکن دنیا کے دیگر ممالک جن کا اوپر ذکر کیا گیا میں اور سعودی عرب میں بڑا فرق ہے۔ امریکہ یا یوروپی ممالک میں غیر ملکی ایک عرصہ کام کرنے کے بعد ان کی اکثریت ان ممالک کی شہریت حاصل کرلیتی ہے اور پھر وہیں کی ہورہتی ہے۔ مگر سعودی عرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں غیر ملکی کارکنان کا طویل قیام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انہیں جب تک یہاں رہیں اپنا اقامہ (Work Permit) تجدید کرواتے رہنا پڑتا ہے اور اقامہ کی مدت یا ملازمت سے فارغ کردیئے جانے پر اپنے وطن لوٹنا پڑتا ہے۔ غیر ملکیوں کو اپنے قیام کے دوران بیمار ہونے کی صورت میں سرکاری ہسپتال میں علاج کی سہولت حاصل نہیں رہتی اور نہ ان کے بچوں کو یہاں کے کالج یا جامعات میں مقامی طلباء کی طرح تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ خیر جو بھی ہو اور جیسے بھی حالات ہوں یہاں نصف صدی سے غیر ملکی باشندوں کی گزر رہی ہے۔ سعودائزیشن یا دیگر لیبر قوانین کی وجہ سے غیر ملکی اپنی ملازمتیں کھو رہے ہیں لیکن جو ہیں حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے جی رہے ہیں۔ یہاں نجی شعبہ میں بہت سی آسانیاں مقامی باشندوں کے لیے مختص کردی گئی ہیں اور ان پر عمل آوری بھی ہورہی ہے۔ پچھلے ہفتہ ایک مقامی اخبار نے اس سلسلے میں ایک سروے شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ سعودی عرب میں نجی شعبہ میں تنخواہوں کی کمی اور دیگر اسباب کے باعث یومیہ 421 سعودی کارکن مستعفی ہورہے ہیں۔ اخبار الوطن کے سروے میں بتایا گیا کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں 15 ہزار 173 سعودیوں نے نجی شعبہ کو خیرباد کہا۔ سروے کے مطابق نجی شعبہ کو خیرباد کہنے کی متعدد وجوہ سامنے آئی ہیں جن میں سب سے اہم وجہ آجر کی جانب سے نوکری سے برخاست کردیا جاتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ تنخواہوں کی کمی اور تیسرا سب از خود استعفیٰ پیش کرنا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران مملکت کی سطح پر 36.8 فیصد سعودیوں کو آجر کی جانب سے ان کی ملازمت سے یہ کہہ کر فارغ کیا گیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ ماہانہ تنخواہ کی وجہ سے 33.9 فیصد سعودیوں نے خود نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ عارضی معاہدے ملازمت کی مدت ختم ہونے پر 7.8 فیصد مقامی افراد نے ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کی۔ 4.9 فیصد سعودی خواتین نے گھریلو حالات کے باعث کام پر جانے سے انکار کردیا۔ 1.4 فیصد نوجوانوں نے کام کی جگہ سے گھر بہت دور ہونا قرار دیا۔ 1.8 فیصد افراد نے صحت کو سبب قرار دیا۔ 3.3 فیصد سعودیوں کا کہنا تھا کہ وہ دن میں دو ٹائم (Double Shift) کام کرنا نہیں پسند کرتے۔ سعودی عرب میں مارکٹوں میں کام کرنے کے اوقات کار صبح سے دوپہر اور سہ پہر سے رات 10 بجے تک ہوتے ہیں۔ ملازمت کو ازخود خیرباد کہنے میں سعودی خواتین بھی شامل ہیں۔ سروے میں بتایا گیا کہ 15.3 فیصد خواتین نے ماہانہ تنخواہوں میں کمی کو بنیادی وجہ قرار دیا۔ 5.6 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں کام کا دورانیہ مناسب نہیں لگتا اس لیے انہوں نے نوکری کو خیرباد کہا۔ 12 ہزار 192 نے کام کو خیرباد کہا جبکہ خواتین کارکنوں کی تعداد 5 لاکھ 83 ہزار 615 ہے۔ 13 ہزار 97 مارکٹ سے نکل چکی ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی وزارت محنت کی جانب سے نجی شعبہ میں متعدد شعبوں میں سعودی کارکنوں کو روزگار فراہم کرنا لازمی ہے۔ متعدد شعبے ہیں جن میں غیر ملکیوں کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان شعبوں میں کام کرنے والے غیر ملکیوں پر جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ خلاف ورزی کے مرتکب اداروں کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔
یہاں لیبر قوانین ہر دو کی ملازمت کے تحفظ کے لیے قانون رکھتی ہے، چاہے وہ مقامی باشندے ہوں یا غیر ملکی۔ محکمہ محنت و سماجی بہبود مقامی باشندوں کو ملازمت فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ پھر بھی اگر مقامی باشندے دلجوئی سے کام نہ کرتے ہیں تو وہ اپنی بے روزگاری کے خود ذمہ دار ہیں۔٭