’’جمع قرآن ‘‘کے اہم فریضے کو انجام دینے والے عظیم صحابی ، کاتب وحی حضرت سیدنا زید بن ثابت ؓکو جب قبر میں اُتار دیا گیا تو آپ کے شاگر د رشید ترجمان القرآن حضرت سیدنا عبد الله ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا ترجمہ: ’’جو شخص یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ دنیا سے علم کیسے رخصت ہوتا ہے تو وہ دیکھے (اس طرح علماء کے اُٹھ جانے سے) علم اُٹھ جاتا ہے ‘‘ ۔ (تاریخ دمشق۔ ابن عساکر ۱۸۰۵۳)
حضرت شیخ الحفاظ ڈاکٹر حافظ و قاری شیخ احمد محی الدین قادری شرفی بانی دار العلوم النعمانیہ در حقیقت قدیم حفاظ کی آخری کڑی تھی۔ آپ کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ آج حفاظ تو بکثرت موجود ہیں لیکن حضرت شیخ الحفاظ نے تعلق و شغف بالقرآن ، فنا فی القرآن اور عشق قرآن کا جو اعلیٰ نمونہ چھوڑا ہے ہماری گنہگار آنکھیں اس کی مثال دیکھنے سے قاصر ہیں ۔ ؎
عطا اسلاف کا جذب دروں کر
شریک زمرۂ لا یحزنوں،کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰـ کے کچھ خاص بندے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا : وہ کون ہیں یا رسول الله ؟ تو آپ ﷺنے فرمایا : اھل القرآن ہی اللہ والے ہیں اور وہ اس کے مخصوص و چنندہ بندے ہیں۔ (ابن ماجہ ۱/ ۷۸) چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہؒ سے دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ولیوں کو کہاں تلاش کیا جائے توفر مایا : قرآن پڑھنے والوں میں ۔ کہا کہ ان میں تو کرامتیں نہیں دکھائی دیتیں ۔ تو آپ نے فرمایا ! اگر اُن کو خدا کا ولی نہ تسلیم کیا جائے تو رو ئے زمین پر خدا کا کوئی دوست نہیں ہو سکتا ۔ (تذکرہ قاریان ہند ص ۳۱ )
حضرت شیخ الحفاظ نے روحانی ترقی نفس کی اصطلاح اور سلوک کی تکمیل کے لئے سلوک بالقرآن یعنی قرآن مجید کے ذریعہ روحانی مدارج کو طے کرتے ہوئے عشق الٰہی اور معرفت الٰہی کا ارادہ کیا اور بلا شبہ نفس کی اصلاح اور اخلاق کی تربیت میں قرآن مجید ہی سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ثابت ہوا ہے ۔ غیر شعوری طور پر قرآن مجید کی تلاوت کی برکت سے انسان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور صاحب قرآن کی زبان اور کاوش میں غیر معمولی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے ؎
تري خودي میں اگر انقلاب ہو پيدا
عجب نہیں ہے کہ يہ چار سو بدل جائے
مولانا رومی فرماتے ہیں : ’’چوں قرآن بگذری ، خدا بینی ‘‘ جونہی تم قرآن سے گزر جاؤ گے یعنی اسکی گہرائی میں اُتر جاؤ گے تو خدائے تعالیٰ ـ کو پا لو گے ۔ قرآن مجید کے ذریعہ سے سلوک طے کرنا در حقیقت خدا تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ کو پانا ہے جو کہ یقیناً صاحب قرآن کو منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات قرآن مجید کے الفاظ و کلمات میں ایسی موجود ہے جس طرح پھول کے پتوں میں اُسکی مہک اور خوشبو موجود ہوتی ہے ۔ جو اللہ تعالیٰـ ـ کے دیدار کا خواہشمند ہوگا وہ اسکو قر آن مجید کے الفاظ میں ہی پالے گا ۔ ؎
در سخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا
حافظ قرآن جو صبح و شام قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے محبوب سے سرگوشی اور شرفِ ہمکلامی سےمحظوظ ہوتا ہے۔ وہ براہ راست مناجات کی لذت و سرور سے بہرور ہوتا ہے ، اس کے نزدیک کلام الٰہی اُس کے محبوب کا کلام ہے جو اُس کے سینے میں محفوظ ہے نیز عاشق و معشوق کے درمیان حضرت جبرائیل امین کی پیغام رسانی کا کوئی ذکر نہیں۔ اس مفہوم کو شاعر نے اپنے شعر میں ذکر کیا ہے ؎
ز جبرئیلِ امیں قُرآں بہ پیغامے نمی خواھم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ من دارَم
صاحبِ قرآن پر تجلی ذاتی کا ظہور ہوتا ہے اور ذات برحق قاری پر اپنی ذاتی تجلیات کا ظہور فرماتا ہے ۔ خانۂ دل ایمان و حکمت سے لبریز ہوتا ہے اور شور و غوغا یعنی نفسانی خواہشات ، تکبر ، حرص و حسد سے پاک صاف ہوجاتا ہے ۔ عرفی کے اس فارسی شعر میں یہی معنی و مفہوم درج ہیں ؎
عروس قرآن آنگہ نقاب از رُخ بیاندازد
کہ دارالملک ایماں را مجرد بیند از غوغا
حضرت شیخ الحفاظ قدیم بزرگ حفاظ اور نوجوان حفاظ کے درمیان برزخ اور کلیدی کڑی کے مانند ہیں۔ آپ ہی کے توسط سے سینکڑوں حفاظ کرام کو قدیم بزرگ حفاظ کرام کے اوصاف و کمالات اور ان کے مکارم اخلاق کو سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ علاوہ ازیں آپ کے اساتذہ اور اکابر حفاظ کے جو معمولات اور روایات تھیں اُن سب کو آپ نے اپنے اندر سمولیا اور اپنے طلباء میں حیدرآبادی حفاظ کی روایات کو جاری فرمایا۔ واضح رہے کہ حفظ قرآن مجید کی خدمت کی برکت سے صاحب قرآن ذہنی سکون اور اطمینان قلبی سے محظوظ ہوتا ہے اور وہ پراگندہ خیالی اور انتشار ذہنی سے محفوظ رتا ہے۔ اسکی زندگی میں ٹھہراؤ ، وقت میں نظم وضبط ، اخلاق میں توازن ، خدمت خلق کا مثالی جذبہ ، ہمدردی ، غمخواری ، شفقت و عفوودرگزر کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس خاکسار کو حضرت شیخ الحفاظ قبلہ کو ۳۷ سال بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ آپ رشتوں کو نبھانے والے ، خاندان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے ، برادران و ہمشیرگان کا لحاظ رکھنے والے ، خاندان کے بزرگوں کا اکرام کرنے والے ، بزرگ اہل محلہ کے مونس ، نوجوان اہل محلہ کی دلجوئی و شفقت فرمانے والے اساتذہ کے ساتھ حد درجہ ادب واحترام کا معاملہ کرنے والے اپنے سینئرس کی تکریم کرنے والے ، پیر زادوں اور استاذ زادوں کی تعظیم کرنے والے ، طلباء کو آگے بڑھانے والے ان کو ہر ممکنہ تعاون پیش کرنے والے ان کے سکھ دکھ میں اُن کی دستگیری کرنے والے ، اُن کے لئے راتوں میں گڑگڑا کر دعائیں کرنے والے ، اُن کی ترقی کے لئے راہ ہموار کرنے والے بے مثال استاذ و مہربان مربی پا یا ہے ۔ بطور خاص آخری ایام میں جو علالت کے دوران آپ نے جو صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا اتنی سخت آزمائش و بیماری کے با وجود حرف شکایت زبان پر نہیں لائی اور قرآن مجید سے وابستگی جنوں کی حد تک عشق کی مثال قائم کی ۔
حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اِس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے ، اگر وہ صبر کرے تو اسکو اپنا پسندیدہ بنا لیتا ہے اور راضی رہے تو اسکو برگزیدہ بنالیتا ہے ۔ نیز صبر کے آداب میں یہ ہے کہ زبان کو شکوہ و شکایت سے دور رکھے ۔ حق تعالیٰـ کے سوا کسی سے اپنی تکلیف ومصیبت کا اظہار نہ کرے۔
الغرض حضرت ممدوح کے آخری ایام آپکی زندگی کے بہترین ایام تھے جن میں آپ نے عزیمت، ثبات قدمی اولوالعزمی اور مکارم اخلاق کا عملی نمونہ پیش کیا ۔ اللہ تعالیٰـ ـ نے آپ کو ہزار ہا چاہنے والے شاگردوں کے ساتھ خیر الحفاظ محترم حافظ شیخ منہاج محی الدین اسعدہ الله جیسا پاک طینت ، وفا شعار فرزند سر فراز فرمایا جنھوں نے اپنے والدگرامی قدر کی بے مثال خدمت کا شرف حاصل کیا اور ان کو مرحوم کی آخری وقت کی قلبی دعائیں نصیب ہوئی ۔ صوفیاء کا قول ہے سلوک کے دس راستے و مراتب ہیں ، ایک درجہ مجاہدہ سے طے ہوتا ہے اور نو درجات محض خدمت سے حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰـ ـ استاذ گرامی کی قبر کو نور سے بھردے اور آپ کے فرزند و جانشین کودین و دنیا کی سعادتیں نصیب فرمائے ۔ آمین