مذکورہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ایک خانگی انگریزی میڈیم اسکول گنگا جمنی نے ٹاپر اسٹوڈنٹس کی ایک پوسٹر لگایا جس میں ہندو لڑکیاں بھی شامل تھیں جو حجاب پہنی ہوئی نظر ائیں۔
بھوپال۔مدھیہ پردیش ہوم منسٹر ناتھو رام مشرا نے دعو کیا ہے کہ داموح نژاد اسکول میں مبینہ ”مذہبی تبدیلی“ کے معاملے میں ملوث ملزمیں کوپولیس نے تحویل میں لے لیاہے۔ اس معاملے کی تحقیقات پر مزید تفصیلات ڈالے بغیر منسٹر نے کہاکہ پولیس فرار لوگوں کی تلاش میں ہے۔
انہو ں نے اس بات کا بھی اشارہ دیاکہ انتظامیہ کی جانب سے داموح نژاد گنگا جمنی اسکول جس کے ٹاپر گرلز اسٹوڈنٹس کے حجاب کے ساتھ تصویر پر مشتمل ایک پوسٹر منظر عام پر آنے کے بعد مبینہ ”مذہبی تبدیلی“ کا معاملہ بن گیا ہے‘ اس کے خلاف ایک ”بلڈوزر اپریشن“ انجام دیاجائے گا۔ چند دن قبل اسکول انتظامیہ کے خلاف ایک ایف ائی آر درج کی گئی ہے۔ا
نہوں نے کہاکہ ”تحقیقات جاری ہے اور ایک بعد دیگر ملزمین کی گرفتاری عمل میں آرہی ہے‘ فرار لوگوں کی پولیس تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ ا س معاملے میں ملوث لوگوں کوبخشا نہیں جائے گا اوربلڈوزر اکاروائی کی جائے گی“۔
مشرا نے مزیدکہاکہ ”جرائم کی تہیں ایک کے بعد دیگر کھل رہی ہیں اور پولیس جب تحقیقات مکمل کرلیتی ہے تو تمام چیزیں واضح ہوجائیں گی“۔ اس واقعہ نے انتخابات کے زیر سایہ مدھیہ پردیش نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیاہے۔
برسراقتدار بی جے پی کے قائدین او رمنسٹران داموح ضلع کلکٹر کے بشمول اہلکاروں پر الزام لگارہے ہیں کہ اپنی تحقیقات میں انہوں نے ”جانبداری“ اختیار کی ہے اور معاملے کی ایک اعلی سطحی جانچ پر زور دے رہے ہیں۔ بی جے پی کا الزام یہ بھی ہے کہ واقعہ کا’دہشت گردی فنڈنگ“ سے تعلق ہے۔
اب ایک نیا الزام نیشنل کمیشن برائے تحفظ اطفال پریناک کانوگو نے لاگیاہے جس کا دعو ی ہے کہ بھوپال میں گنگا جمنی اسکول گروپ کا ایک ہاسٹل ہے جس کا استعمال مبینہ ”مذہبی تبدیلی“ کے لئے کیاجاتا ہے۔ انہوں نے اس میں تحقیقات کی مانگ کی ہے۔
مذکورہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ایک خانگی انگریزی میڈیم اسکول گنگا جمنی نے ٹاپر اسٹوڈنٹس کی ایک پوسٹر لگایا جس میں ہندو لڑکیاں بھی شامل تھیں جو حجاب پہنی ہوئی نظر ائیں۔چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان نے ”دہشت گردی کے لئے فنڈنگ“ او ر”مذہبی تبدیلی“ کے الزامات کے درمیان معاملے کی ایک اعلی سطحی جانچ کا حکم دیدیا ہے۔