حج اور عمرہ حُسنِ نیت کے ساتھ کیا جائے

   

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّـٰهِ ۚ
اور پورا حج کرو اور عمرہ کرو اﷲ کی (رضا) کیلئے۔(سورۃ البقرہ)
اہلِ عرب قدیم زمانہ سے حج کیا کرتے تھے، لیکن ان کے نزدیک حج ایک میلہ یا تجارتی منڈی بن کر رہ گیا تھا۔ عبادت کا پہلو تو بالکل ختم ہوگیا تھا یا اتنا غیراہم ہو کر رہ گیا تھا کہ اس کا کوئی اثر محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ وہاں پر لوگ آتے سیر و تفریح کرکے چلے جاتے۔ شاعر اپنے قصائد اور خطیب اپنے آتشی خطبے سنا کر لوگوں کے دلوں پر فصاحت و بلاغت کا سکّہ جماتے اور چلے جاتے۔ چند روز تجارت کا بازار بھی خوب گرم رہتا۔ اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’حج و عمرہ کرو، پورے اخلاص و حسن نیت کے ساتھ‘‘۔(تفسیرضیاء القرآن)
مذکورہ آیت میں حکم صرف حج اور عمرہ کی غرض سے کعبۃ اﷲشریف تشریف لانے والوں کیلئے ہے۔ انکے لئے ایک سفر میں حج اور عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔اور وہ بھی غیر مکی کیلئے۔ ہندوستانیوں کیلئے میقات ’’ یلملم‘‘ ہے۔
حج کی نیت کے بعد اﷲتعالیٰ نے حجاج کیلئے یہ حکم کردیا کہ وہ ’’رَفَثَ ‘‘ یعنی فسق و جدال (گناہ و جھگڑا) والی گفتگو نہ کریں۔
ایامِ حج یہ ہیں : آٹھ ذوالحجۃ الحرام تا بارہ ذوالحجۃ الحرام یہ سب ایام حج کہلاتے ہیں۔ (اقتباس از۔ صوفیٔ اعظم)