حج اور عمرہ حُسنِ نیت کے ساتھ کیا جائے

   

حافظ محمدسعیدالدین نظامی
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّـٰهِ ۚ o
اور پورا حج کرو اور عمرہ کرو اﷲ کی (رضا) کیلئے۔(سورۃ البقرہ)
اہلِ عرب قدیم زمانہ سے حج کیا کرتے تھے، لیکن ان کے نزدیک حج ایک میلہ یا تجارتی منڈی بن کر رہ گیا تھا۔ عبادت کا پہلو تو بالکل ختم ہوگیا تھا یا اتنا غیراہم ہو کر رہ گیا تھا کہ اسکا کوئی اثر محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ وہاں پر لوگ آتے سیر و تفریح کرکے چلے جاتے۔ شاعر اپنے قصائد اور خطیب اپنے آتشی خطبے سنا کر لوگوں کے دلوں پر فصاحت و بلاغت کا سکّہ جماتے اور چلے جاتے۔ چند روز تجارت کا بازار بھی خوب گرم رہتا۔ اﷲتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’حج و عمرہ کرو، پورے اخلاص و حسن نیت کے ساتھ‘‘۔(تفسیرضیاء القرآن)۔
حج کی نیت کے بعد اﷲتعالیٰ نے حجاج کیلئے یہ ناجائز کردیا کہ وہ ’’رفث‘‘ یعنی فسق و جدال (گناہ و جھگڑا) والی گفتگو نہ کریں۔ایامِ حج یہ ہیں: آٹھ ذوالحجۃ الحرام تا بارہ ذوالحجۃ الحرام یہ سب ایام حج کہلاتے ہیں۔ ارکانِ حج یہ ہیں: ۱) وقوفِ عرفہ یعنی (نویں ذوالحجۃ الحرام کو زوال کے بعد سے دسویں ذوالحجۃ الحرام کی صبحِ صادق تک کچھ دیر کا قیام فرض ہے اور یہ حج کا عظیم رکن ہے۔۲) طواف زیارت یعنی دسویں ذوالحجۃ الحرام سے بارہویں ذوالحجۃ الحرام تک کیا جاسکتا ہے۔ دسویں ذوالحجۃ الحرام کا دن افضل ہے۔واجباتِ حج یہ ہیں : ۱) وقوف عرفہ۔ ۲) رمیٔ جمار۔ ۳) قربانی۔ ۴) صفا اور مروہ کے درمیان کی سعی ۔۵) طواف وَداع۔ (اقتباس از۔ صوفیٔ اعظم)
اﷲ تعالیٰ تمام حجاج اور معتمرین کو شرعی حدود میں رہ کر حج و عمرہ کرنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آمین