حج کےضروری آداب

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو اسلام و ایمان کی دولت عطا فرمایا ہے۔ یقینًا یہ ایک ایسی نعمت ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر اداکریں کم ہے۔ مزید نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ زندگی میں ایک مرتبہ صاحب استطاعت پر حج فرض ہوتا ہے۔ اور ہر حاجی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حج کے متعلق مکمل معلومات حاصل کریں۔ انہیں معلومات میں سے ایک ’’حج کے آداب‘‘ کا بھی اہم حصہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حج کے آداب سے مراد وہ اہم باتیں، جن کے بغیر کوئی حج درحقیقت حج ہی نہیں ہوتا۔ اللہ کے گھر کا حج پورے ادب و احترام کے ساتھ کرے اور ہر حاجی اپنے حج کو حقیقی تزکیۂ قلب و روحانی انقلاب کا ذریعہ بنائے۔ لہٰذا قرآن مجید کی روشنی میں ضروری تقریبًا نو (۹) آداب قابل احترام حجاج کی خدمت میں بطورِ استفادہ پیش خدمت ہے۔
پہلا ادب (نیت میں اخلاص) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’اور نہ لوگوں کو چھیڑو جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مقدس مکان کی طرف جارہے ہوں‘‘ (المائدۃ آیت ۲)ویسے تو ہر عمل کے نیک عمل ہونے کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ وہ محض اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو اور اس کے سوا اس میں کسی دوسری خواہش کا ہلکا سا بھی جذبہ نہ ہو۔
دوسرا ادب (دنیا و آخرت کی تمنا) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’پس بعض لوگ تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں خدایا! ہمیں جو کچھ دینا ہے تو اِسی دنیا میں دےدے، ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں ائے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا اور آخرت بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق حصہ پائیں گے۔ اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔ (البقرہ آیت ۲۰۰ تا ۲۰۲)درحقیقت ’’حج‘‘ اُسی کا ہے جو آخرت میں اللہ سے اجر و انعام کا طلبگار ہو اور وہ شخص جس کے دل میں آخرت کے اجر و انعام کی کوئی تمنا و خواہش ہی نہ ہو، جو شخص اِس دنیائے فانی میں رہ کر صرف دنیا ہی بنانا چاہتا ہو تو ایسے دنیا پرست کا حج اللہ کی بارگاہ میں کوئی قیمت والا نہیں رہے گا۔ مومن تو فلاحِ دارین کی تمنا لئے ہوئے ’’اللہ کے گھر‘‘ پہنچتا ہے اور یہ آرزو لیکر پہنچتا ہے کہ آگ کے عذاب سے محفوظ و مامون ہوجائے۔
تیسرا ادب (اللہ کی یاد) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’اور اللہ کی یاد میں مشغول رہو گنتی کے چند دنوں میں‘‘۔ (البقرہ آیت ۲۰۳) ’’پھر جب تم حج کے تمام ارکان ادا کرلو تو جس طرح پہلے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے اُس سے بھی بڑھ کر اب اللہ کا ذکر خوب کیا کرو‘‘۔ (البقرہ آیت ۲۰۰)حج کے تما م ارکان کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ ’’حاجی اللہ کی بندگی میں ڈوبا رہے‘‘۔ اور اسکی یاد دل میں رچ بس جائے کہ پھر زندگی بھر کوئی چیز غافل نہ کرسکے۔
چوتھا ادب (عمدہ زادِ راہ) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’اور سفر حج کےلئے زادِ راہ (سفر کا توشہ) اختیار کرلو اور سب سے بہتر زاد راہ ’’تقوی‘‘ ہے اور ائے عقلمندو! میرا تقوی اختیار کرو‘‘۔ (البقرہ آیت ۱۹۷)اسلام سے پہلے لوگ حج کے لئے ساز و سامان کے ساتھ نکلنے کو معیوب سمجھتے تھے اور حج کےلئے فقیرانہ شان کے ساتھ نکلنا ضروری خیال کرتے تھے۔ قرآن اس کی تردید کرتے ہوئے بتلاتا ہے کہ ’’اصل چیز ایک حاجی کو جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول بناتی ہے وہ اللہ کا تقوی ہے‘‘۔ حاجی اپنے ساتھ زاد راہ رکھے، مگر ہرحال میں اپنے آپ کو اللہ کی نافرمانی سے بچائے رکھے۔
پانچواں ادب (شعائراللہ) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’اور ائے مومنو! اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی مت کیا کرو، حرمت کے مہینوں کی بے حرمتی نہ کیا کرو، قربانی کے جانوروں پر دست درازی مت کیا کرو، ان جانوروں پر ہاتھ مت ڈالو جن کی گردنوں میں (نذر کی علامت کے طور پر) پٹے پڑے ہوے ہوں، اور ان لوگوں کی راہ میں رکاوٹ مت ڈالو جو اپنے پروردگار کے فضل کی تلاش و خوشنودی کے حصول کےلئے کعبۃ اللہ کی طرف جارہے ہوں‘‘۔ (المائدہ،۳)
روحانی اور معنوی حقیقت کو محسوس کرنے کےلئے جو جو چیزیں مقرر کی گئیں ہوں، اُنہیں ’’شعیرۃ‘‘ کہتے ہیں۔ حج کے دوران تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے قرب اور حقیقت کو یاد دلانے کے لئے مقرر کی گئیں۔ حج کی ہر ایک چیز مکرم و محترم ہے۔ مثلًا حج کا مہینہ محترم و مکرم، حج کے مقامات محترم و مکرم، حج کی قربانی محترم و مکرم، احرام کی پابندیاں محترم و مکرم وغیرہ۔ ویسے مومن سے مطالبہ یہی ہے کہ اسکی ساری زندگی شریعت خداوندی کی پابند رہے۔
چھٹواں ادب (ارکان حج کی حقیقت) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’اور اللہ کو یاد کرو، جس طرح یاد کرنے کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی۔ اس سے پہلے تو تم لوگ کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔ (البقرہ آیت ۱۹۸)حج کے دوران کی تمام چیزیں ربوبیت کی کسی نہ کسی اہم حقیقت کو اجاگر و محسوس کراتی رہتی ہیں۔ اس لئے سرسری طور پر حج کرلینا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ حج کے دوران کی حقیقتوں سے واقف ہونا اور اسکو تازہ کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔
ساتوا ں ادب (شہوانی باتوں سے پرہیز) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں، جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے ہوشیار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران شہوانی باتیں نہ ہوں‘‘۔ (البقرہ آیت ۱۹۷)حج کا ارادہ کرتے ہی جن باتوں سے سختی کیساتھ بچنے کا حکم دیا گیا، اُن میں رفث یعنی شہوانی باتوں کا سب سے پہلے ذکر ہوا۔
آٹھواں ادب (نافرمانی سے پرہیز) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’اور اللہ کی نافرمانی کی باتیں نہ ہوں‘‘۔ (البقرہ آیت ۱۹۷)اللہ کی نافرمانی سے ہر حال میں بچے رہنے کا حکم ہے۔
نواںادب (لڑائی جھگڑے سے پرہیز) : اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ’’اور لڑائی جھگڑے کی باتیں نہ ہوں‘‘۔ (البقرہ ، ۱۹۷)حج کے پورے سفر میں اژدھام زیادہ ہوتا ہے اور قدم قدم پر ایک دوسرے کا ٹکراؤ ہوتا ہے، جس سے ہر ایک کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ اِس لئے اِس کا خاص اہتمام ہونا چاہئے۔ یہاں تک کہ اپنے خادم کو بھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ ہر حاجی کو حج مقبول نصیب فرمائے، ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ (ماخوذ کُتب بانی جامعہ نظامیہ، صفۃ الحج اور قرآنی تعلیمات)