جیسے ہی ملک کی پارلیمنٹ میں خواتین تحفظات کا بل منظور کرلیا گیا یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں کہ ملک میں اب مردم شماری کی جائے گی اور پھر اس کی اساس پر حلقہ جات اسمبلی و پارلیمنٹ کی از سر نو حد بندیاں کی جائیں گی ۔ آبادی کے تناسب کے اعتبار سے حلقوں کے حدود کا تعین کیا جائیگا۔ حالانکہ یہ حد بندی ابھی 2024 کے انتخابات سے قبل نہیں ہوگی لیکن آئندہ ضرور اس کے ذریعہ سیاسی اتھل پتھل کی کوششوں کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ شبہات حقیقت بن سکتے ہیں کہ حلقہ جات کی از سر نو حد بندی کرتے ہوئے جنوبی ہند کو مرکزی سیاست میں مزید حاشیہ پر کردیا جائیگا ۔ ویسے بھی ملک کی سیاست میں جنوبی ہند کو زیادہ مقام و مرتبہ نہیں دیا جاتا ۔ ہر مسئلہ اور معاملے میں شمالی اور وسطی ہندوستان کا غلبہ ہی دکھائی دیتا ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ کی تعداد ہو یا پھر عوامی رائے ہو شمالی ہند کو ہی فوقیت دی جاتی ہے ۔ جنوب کی ریاستیں اس معاملے میں محروم رکھی جاتی ہیں۔ جنوبی ہند کے عوام کو اس کی ہمیشہ سے شکایت رہی ہے ۔ اب جو حد بندی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ان کے مطابق بھی سارے جنوبی ہند میں نشستوں کی تعداد میں انتہائی معمولی اضافہ ہوگا جبکہ شمالی اور وسطی ہندوستان میں پارلیمانی نشستوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائیگا ۔ اس علاقائی عدم توازن کے اثرات مرکزی حکومت کی پالیسیوں اور پروگرامس پر بھی مرتب ہونگے ۔ سارے جنوب کی اگر بات کی جائے تو کرناٹک میں ارکان پارلیمنٹ کی موجودہ تعداد 28 ہے جو بڑھ کر 36 ہوسکتی ہے ‘ تلنگانہ میں تعداد 17 سے 20 ‘ اے پی میں 25 سے 28 اور ٹاملناڈو میں 39 سے 41 ہوسکتی ہے ۔ اس طرح جملہ اضافہ 16 نشستوں کا ہوگا جبکہ کیرالا ایسی ریاست ہے جہاں ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 20 سے گھٹ کر 19 ہوجائیگی ۔ اس طرح سارے جنوبی ہند میں جملہ ارکان کی تعداد میں صرف 15 کا اضافہ ہوگا ۔ اس کے برخلاف اترپردیش میں نشستوں کی تعداد 80 سے بڑھ کر 128 ہوجائے گی ۔ صرف اسی ایک ریاست میں جملہ 38 نشستوں کا اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے ملک کی سیاست پر ضرور اثرات مرتب ہونگے ۔
بہار میں فی الحال 40 نشستیں ہیں اور نئی حد بندی کے بعد یہ تعداد 70 ہوجائیگی ۔ اس طرح یہاں 30 کا اضافہ ہوگا ۔ مدھیہ پردیش میں تعداد 29 ہے جو بڑھ کر 47 ہوجائے گی ۔ یہاں 18 نشستوں کا اضافہ ہوگا ۔ راجستھان میں ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 25 ہے جو بڑھ کر 44 ہو جائے گی ۔ اس طرح یہاں 19 نشستوں کا اضافہ ہوگا ۔ اس طرح صرف چار ریاستوں میں ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میں 117 کا اضافہ ہوجائیگا ۔ جنوبی ہند میں علاقائی جماعتیں عوامی تائید و حمایت رکھتی ہیں۔ تلنگانہ میں بی آر ایس ‘ اے پی میں وائی ایس آر کانگریس و تلگودیشم پارٹی ‘ ٹاملناڈو میں ڈی ایم کے اور انا ڈی ایم کے ‘ کرناٹک میں جے ڈی ایس وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح جنوبی ہند کو نشستوں کی تقسیم کے بعد ملک کی مرکزی سیاست میں اپنی آواز بلند کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ مناسب نمائندگی ملنے نہیں پائے گی ۔ نشستوں کی تعداد کے مطابق ہی مرکزی کابینہ میں وزارتیں تقسیم ہوسکتی ہیں۔ ایسے میں مرکزی کابینہ میں بھی جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے وزراء کی تعداد کم ہوگی ۔ پارلیمنٹ اور حکومت دونوں میں جنوبی ہند کی نمائندگی میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے ۔ یہ علاقائی عدم توازن خاص طور پر جنوبی ہند کیلئے اچھی علامت نہیں ہوگی ۔ دنیا بھر میں آئی ٹی شعبہ میں ہندوستان کا جو طوطی بول رہا ہے وہ صرف اور صرف جنوبی ہند کے آئی ٹی ماہرین کی مرہون منت ہے ۔ صحت کا شعبہ ہو یا پھر دوسرے اہم شعبہ جات ہوں جنوبی ہند نے ہمیشہ زیادہ اہم رول ادا کیا ہے ۔
یہ درست ہے کہ آبادی کے ووٹرس کے تناسب سے حلقہ جات کی حد بندی کی جاتی ہے لیکن اس میں علاقائی توازن کو برقرا ررکھنے پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ ملک میں 1981 اور 1991 کی مردم شماری کے بعد حلقہ جات کی از سر نو حد بندی نہیں ہوئی ۔ 2001 کی مردم شماری کے بعد از سر نو حد بندی تو کی گئی لیکن حلقہ جات کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا ۔ اب اضافہ ہونے والا ہے تو اس میں سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھنے کی بجائے ملک کے ہر خطہ اور ہر علاقہ کو مناسب اور موثر نمائندگی دینے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ علاقائی توازن بگاڑنے کی بجائے اس کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔