حراست میں تھرڈ ڈگری سے نوجوان کی افسوسناک موت

   

محمد اسد علی ،ایڈوکیٹ
ریاست تلنگانہ میں آج کل نام نہاد فرینڈلی پولیس کا بہت چرچہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا رویہ اس کے برعکس ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے مجرمین کو نظرانداز کردیا جاتا ہے اور انہیں کسی نہ کسی طرح الزامات منصوبہ بندی سے بری کروانے کی کوشش کی جاتی ہے، ایسے متعدد واقعات تلنگانہ بالخصوص شہر حیدرآباد میں پیش آتے ہیں جس سے نام نہاد فرینڈلی پولیس کا رویہ بے نقاب ہوتا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران پولیس نے قدیر خاں کو محض شک کی بنیاد پر اخبارات میں شائع رپورٹ کے مطابق 29 جنوری کو پرانے شہر کے حسینی علم علاقہ سے حراست میں لیا تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گرفتاری کی مدت کے دوران ان کے ساتھ تھرڈ ڈگری ٹارچر کیا گیا اور انہیں بری طرح زدوکوب کیا گیا جس کی وجہ سے قدیر خاں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور گردے ناکارہ ہوگئے تھے اور علاج کے دوران ان کی موت ہوگئی۔ بغیر تحقیق دوران تفتیش سخت حربوں کا استعمال کرتے ہوئے پولیس نے ان سے جبراً اقبال جرم کروانے کی کوشش کی لیکن چونکہ حقیقت اس کے برعکس تھی لہٰذا قدیر خاں نے اس قسم کے جرم کے ارتکاب سے انکار کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس نے انہیں شدید بے رحمی اور وحشیانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے پولیس کو وحشیانہ سلوک کا اختیار نہیں ہے لیکن تعصب پسند اور غیرذمہ دار پولیس عہدیدار اپنے عہدہ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف شہرت حاصل کرنے کیلئے مارپیٹ کے ذریعہ اقبال جرم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں قدیر خاں کی گرفتاری اور رہائی کے بارے میں اخبارات اور سوشیل میڈیا میں وائرل ویڈیوز کے مطابق ضلع میدک ایس پی کا بیان شائع ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ قدیر خاں کو صبح گرفتار کرنے کے بعد شام میں رہا کردیا گیا تھا حالانکہ وہ زیرحراست تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا عہدیدار کو یا تو حقائق کا علم نہیں تھا یا انہوں نے جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض پولیس عہدیدار اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کسی شخص کی گرفتاری کی اطلاع عہدیداران بالا کو نہیں دیتے ہیں جو بذات خود ایک جرم ہے حالانکہ قانونی کارروائی میں اعلیٰ عہدیداران کو حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بیشتر عہدیدار اپنے فرائض منصبی پر اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے مجرمانہ ذہن رکھنے والے بعض پولیس عہدیداروں کی وجہ سے محکمہ پولیس کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے حالانکہ چند عہدیدار ایسے بھی ہیں جو قانون اور اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیتے ہیں اور کسی بھی اثر و رسوخ کو یا پیسے کو مجرم کی پردہ پوشی کیلئے قبول نہیں کرتے، لیکن قدیر خاں کی موت سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ میں مبینہ طور پر اس وقت بھی ایسے بعض عہدیدار موجود ہیں جو جانب داری اور تعصب سے کام لیتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے ایک بااختیار کمیٹی کا تقرر کیا جائے لیکن اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اگر ایسا نہ ہو تو خودسر پولیس عہدیدار من مانی کرتے رہیں گے اور محکمہ پولیس کی نیک نامی اور ماضی میں جو شہرت رہی ہے، وہ بُری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اکثر دیکھا گیا کہ بعض پولیس ملازمین عوام کو ہراساں کرتے ہیں اور مارپیٹ کا نشانہ بناتے ہیں جو انتہائی غیرقانونی عمل ہے، اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے تو اسے سزا دینے کا اختیار پولیس کو نہیں بلکہ عدالت کو ہے لیکن بعض پولیس ملازمین قبل از وقت بلااختیار اور خلاف قانون اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرتے ہیں حالانکہ قانونی اعتبار سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مجرم نہیں قرار دیا جااسکتا ہے تاوقتیکہ عدالت میں اس کا جرم ثابت نہ ہو لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کس نے پولیس کو عوام کے ساتھ تشدد کا اختیار دیا ہے جو سراسر دستور اور قانون کے مغائر ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ پولیس خود اپنے طور پر اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی اصلاح کرے، ورنہ اس کے نتائج انتہائی ناخوشگوار ہوں گے جس سے محکمہ پولیس کی نیک نامی متاثر ہوگی۔ مزید یہ کہ حیدرآباد گنگا۔ جمنی تہذیب کی وجہ سے مشہور رہا ہے لیکن حالیہ قدیر خاں کی موت، آلیر انکاؤنٹر جیسے واقعات سے یہ تہذیب متاثر ہورہی ہے، اس سلسلے میں تلنگانہ ہائیکورٹ نے ازخود نوٹ لیا ہے جس سے نہ صرف تلنگانہ کے عوام بلکہ ہندوستان کے عوام کو یقین ہے کہ تلنگانہ ہائیکورٹ اس واقعہ میں ملوث خاطیوں کے خلاف اقدام قتل کے مقدمہ کے اندراج کی ہدایت دے گی اور متاثرہ خاندان کیلئے بھی ہر طرح سے امداد کی فراہمی کا حکم جاری کریں گے تاکہ عدلیہ اور انصاف کا سربلند ہو اور عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی اور عدم اعتماد کی کیفیت ختم ہوجائے۔ اگر عدالت سے بھی انصاف فراہم نہ کیا جائے تو عوام کا اعتماد عدلیہ پر سے پوری طرح ختم ہوجائے گا اور معاشرہ میں انتشار پیدا ہوجائے گا۔