حساب بھی ہوگا پکڑ بھی ہوگی …یہاں نہیں تو وہاں

   

محمد مصطفی علی سروری
چہارشنبہ 23؍ جون شام 7 بجے کا وقت تھا۔ تاریخی چارمینار کے قریب میں واقع شاہ علی بنڈہ روڈ پر ٹریفک سگنل کا منظر ہے۔ ریڈ لائٹ کو دیکھ کر سگنل پر سب لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ پیدل چلنے والے سڑک کراس کر رہے تھے کہ اچانک ایک تیز رفتار کار ریڈ سگنل کے باوجود آگے بڑھتی ہے اور سڑک پاکر کرنے والوں کو زوردار ٹکر مارتے ہوئے آگے چلی جاتی ہے۔ علاقے کے اے سی پی بی بھکشن ریڈی کے حوالے سے اخبار انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ کار کی ٹکر سے چند افراد شدید زخمی ہوگئے جنہیں عثمانیہ دواخانہ لے جایا گیا جہاں پر 38 سالہ زخمی ہونے والی خاتون کی موت واقع ہوگئی اور دیگر زخمیوں کو علاج کے لیے شریک کردیا گیا۔ اخبار نے پولیس کے ذرائع سے لکھا کہ سڑک پر چلنے والوں کو ٹکرمارنے کے بعد کار تیز رفتاری کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔
شہر حیدرآباد میں اب چپہ چپہ پر سٹی پولیس کے سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ ان کیمروں سے ملنے والی ویڈیو فوٹیج کی مدد سے پولیس نے جلد ہی کار کا نمبر پلیٹ اور کار کے مالکان کا پتہ لگاکر تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا اور مزید تحقیقات کرنے کا اعلان کیا۔ اخبار دکن کرانیکل میں 26؍ جون کو باضابطہ طور پر ناموں کے ساتھ ان ملزمان کی تفصیلات شائع ہوئی جو کہ شاہ علی بنڈہ کے علاقے میں راجیش میڈیکل ہال کے ٹریفک سگنل کے اس حادثہ میں ملوث تھے۔ اخبار نے اس خبر کی سرخی میں واضح طور پر لکھا کہ “Two Students, minor held in Merc Mishap” دو طالب علموں اور ایک نابالغ کو اس حادثہ کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا جو حادثہ کے بعد اپنے گھر سے بھاگ کر شاہین نگر میں چھپے ہوئے تھے۔ قارئین اس حادثہ میں جس کا ر مرسیڈیز بنز کا نام سامنے آیا ہے وہ اخباری اطلاع کے مطابق Mercedez Benz ایک بزنس مین کی ہے۔ اس کار کا مالک اور حادثہ میں ملوث سبھی لڑکے مسلمان ہیں۔ اب ذرا یہ بھی جان لیجئے کہ یہ کار کتنی قیمتی ہے۔ مرسیڈیز کار کے سب سے سستے ماڈل کی قیت بھی 40 لاکھ سے زائد بتلائی جاتی ہے اور سب سے مہنگے ماڈلس کی قیمت کروڑوں میں ہے۔
ضروری نہیں کہ آپ بچوں کو کار چلانے دیں تو ہی غلطی ہو۔ ٹو وہیلرس کو غیر ذمہ داری کے ساتھ چلاتے ہوئے ہمارے بچے آئے دن مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا سدباب کیسے ہو اس کی فکرکرنا بھی ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف مسلم بچوں میں ہی غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ موجودہ نسل کے نوجوان بلا کسی مذہبی امتیاز کے نئی نئی گاڑیوں کو خریدنے، گاڑیاں تیز رفتار چلانے کے چکر میں نہ صرف خود مسائل میں گھرتے جارہے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی تکلیف دہ صورت حال پیدا کر رہے ہیں۔ اسی جون کے مہینے میں 27؍ تاریخ اتوار کی شام شہر حیدرآباد کے علاقے سائبرآباد کے حدود میں ایک تیزرفتار کار نے آٹو کو ٹکر ماری جس کے نتیجے میں آٹو میں سوار مسافر ہلاک اور آٹو ڈرائیور زخمی ہوگیا۔ سائبر آباد ٹریفک پولیس نے شراب کے نشے میں گاڑی چلانے اور ٹکر مارنے کے الزام میں 24 سال کے سجیت ریڈی کو گرفتار کرلیا۔ اخبار دی انڈین ایکسپریس کی 30؍ جون کی رپورٹ کے مطابق یہ نوجوان حالت نشہ میں تیز رفتار کار چلا رہا تھا لیکن سجیت ریڈی کے والد رگھونندن ریڈی نے پولیس کے روبرو اپنے گھر کے کار ڈرائیور کو پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حادثہ کے وقت کار یہ ڈرائیور چلا رہا تھا لیکن سرمایہ دار والد کی جانب سے اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش ناکام ہوگئی جب پولیس نے CCTV کے ذریعہ مختلف مقامات سے نکالی جانے والی ویڈیو فوٹیج کے ذریعہ یہ بات ثابت کردی کہ حادثہ کے وقت گاڑی کوئی اور نہیں بلکہ سجیت ریڈی ہی چلا رہا تھا۔
دوسری اہم بات جو نوٹ کی جانی چاہیے وہ یہ کہ Inorbit Mall کے علاقے میں جو غیر ذمہ دارانہ تیز رفتار کار ڈرائیونگ حادثہ پیش آیا اس میں (Audi) برانڈ کی گاڑی ملوث تھی۔ Audi گاڑی کے متعلق بھی یہ بات مشہور ہے کہ یہ بھی ہمارے ملک ہندوستان کی ایک مہنگی اور معروف برانڈ کی کار ہے۔ اس برانڈ کی کار کی اوسطاً قیمت بھی 50 لاکھ سے زائد ہے۔ کیا ہندو ہو کیا مسلمان، باپ جب کمانے لگتا ہے تو لاکھوں اور کروڑوں کی مالیتی کار خرید لیتا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اولاد کو اچھی تربیت دینے کو بھی یقینی بنایا جاتا؟
یقینا مسلمانوں کے پاس بھی عالیشان کار یا گاڑی، بنگلہ ہونا کوئی خراب بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دولت دی ہے تو بالکل خرید سکتے ہیں لیکن آپ کی اولاد سڑک پر گاڑی ایسے چلاتی ہے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے بلکہ جان کو خطرہ لاحق ہوجائے تو یقینا لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ سوال پوچھیں؟ سوال صرف بچوں کو کار چلانے کے لیے دلانے والوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے بھی کیا جانا ضروری ہے جو اپنے بچوں کو ہزاروں، لاکھوں کی مالیتی ٹو وھیلر گاڑیاں دلا دیتے ہیں۔ لیکن ان کو نہ تو سڑکوں پر گاڑی چلانے کے آداب سکھاتے ہیں اور نہ ہارن بجانے، یہاں تک کہ ان لوگوں کو سڑک پر گاڑی ڈھنگ سے پارک کرنا بھی نہیں آتا۔
جاتے وقت وہ کہہ رہا تھا ارے اچھا ہوا بڈھا مرا نہیں ہے لیکن بظاہر کوئی زخم نہیں آنے کے باوجود وہ حادثہ کے بعد اپنے پیروں پر ٹھہر ہی نہیں سکے۔ ان کی عینک اور ٹفن بیگ سب سڑک پر گر گیا۔ لوگوں نے پکڑ کر اٹھایا تو پتہ چلا کہ ان کاندھے کی ہڈی یا تو سرک گئی ہے یا ٹوٹ گئی ہے۔ شمس الدین کہتے ہیں کہ تقریباً دیڑھ سال تک علاج چلا، تب کہیں جاکر انہیں اپنا ہاتھ اٹھانا آیا۔ وہ کہتے ہیں آج بھی سردیوں کے موسم میں کندھے میں درد سا محسوس ہوتا ہے۔وہ آج بھی اپنے پوتروں اور نواسوں کو ہمیشہ ایک ہی نصیحت کرتے ہیں کہ بیٹے گھر سے باہر نکلو اور سڑک پر گاڑی چلائو تو دوسروں کو تکلیف نہ دو اور دعا کرو کہ تم بھی ہمیشہ دوسروں کی تکلیف سے محفوظ رہو۔
قارئین کرام بحیثیت مجموعی سڑک حادثات کی سنگینی کو سمجھ کر اپنے نوجوانوں کو اس حوالے سے توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ سال 2019ء میں وزارت روڈ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سڑک حادثات میں مرنے والوں کی 37 فیصدی تعداد ٹو وھیلرس چلانے والوں کی ہے۔ اگر سڑک پر چلنے والوں کی حادثات میں ہونے والی اموات کو شامل کرلیا جائے تو سڑک حادثات میں ٹو وھیلر سوار اور پیدل راہرو کی اموات کو ملا لیا جائے تو شرح 54 فیصد تک جا پہنچتی ہے۔ کیا ہم اس پر غور کرنے تیار ہے۔ ذرا سونچئے گا کہ اپنی اور اپنی چاہنے والوں کی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے حصے کی شمع جلائیں۔ اپنے نوجوانوں کو سمجھائیں، کونسلنگ کریں کہ گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ سڑک پر چلنے والوں اور دیگر ٹریفک کا خیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔جس طرح سے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تکلیف دہ چیزوں کا ہٹانا صدقہ ہے تو گاڑی چلاتے وقت آپ کے ہارن سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے، آپ کی گاڑی کی رفتار سے دوسروں کا توازن نہ بگڑے، آپ کی تیز رفتاری سے دوسروں پر پانی اور گندگی نہ اچھلے، ان باتوں پر عمل کرنا بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کرنے والا اور ملک کا ایک ذمہ دار، باشعور شہری بنادے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com