غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردینے اور ہزاروں افراد کو موت کی نیند سلادینے کے بعد اب اسرائیل اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ وغاصبانہ عزائم کو آگے بڑھاتے ہوئے دیگر افراد کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ حزب اللہ ویسے تو ہمیشہ سے اسرائیل کے نشانہ پر رہا تھا اور اس کے خلاف وقفہ وقفہ سے کارروائیاں کی جاتی رہی تھیں ۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو بھی نشانہ بنانے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی تھی ۔ اسرائیل نے تاہم اپنے منصوبہ کو عملی شکل دینے میں کوئی کمی نہیں کی تھی اور بالآخر کل رات دیر گئے حز ب اللہ کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بناتے ہوئے حسن نصر اللہ کو بھی شہید کردیا ۔ حالیہ عرصہ میں ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اسرائیل مسلسل اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے میں لگا ہوا ہے ۔ اسے اس بات کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوگئی ہے کہ عالمی سطح پر اس کا کیا رد عمل ہوسکتا ہے ۔ در اصل یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا ساری بے حسی کا شکار ہوگئی ہے یا پھر ساری دنیا نے فلسطین یا فلسطین کیلئے آواز اٹھانے والوں سے آنکھیںموند لی ہیں اور صرف اسرائیل کی چمچہ گری میں مصروف ہوگئی ہے ۔ ہر کسی کو اسرائیل کی فکر لاحق ہے لیکن نہتے اور معصوم بے گناہ عوام کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتوں پر کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔ حسن نصر اللہ ہمیشہ سے اسرائیل کے خلاف سرگرم رہے تھے اور انہوں نے اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کی بھی نگرانی کی تھی ۔ اس کو نشانہ بنانے کے منصوبے بھی بنائے تھے اور ان کو عملی شکل دینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی تھی ۔ اسرائیل ہمیشہ سے اپنے عزائم اور منصوبوں کی تکمیل میں حسن نصر اللہ اور ایسے ہی عناصر کو رکاوٹ سمجھتا آیا ہے اور ان کا صفایا کرنے کیلئے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ منصوبے بنائے گئے تھے اور بالآخر اسرائیل کو اپنے منصوبے میں کامیابی بھی مل گئی ۔ ایک طرح سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی ہر طاقت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ چاہے وہ ایران میں ہو ‘ فلسطین میں ہو یا پھر اسرائیل میں ہو یا لبنان میں ہو ۔ ہر آواز کو دبایا جارہا ہے یا خاموش کیا جا رہا ہے جو اسرائیل کے خلاف بلند ہوتی رہی تھی ۔
اسرائیل نے حسن نصر اللہ کو بھی شہید کرتے ہوئے یہ واضح اور مستحکم پیام دیدیا ہے وہ آگ سے کھیل رہا ہے اور اس میں آگ سے کھیلنے کی صلاحیت اور طاقت موجود ہے ۔ اسرائیل کو یہ یقین ہوچلا ہے کہ ساری دنیا اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتی ۔ وہ انسانیت سوز حرکتوں کا ارتکاب کر رہا ہے ۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والی فوجی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہاہے۔ نہتے اور معصوم و بے گناہ انسانوں کا ہزاروں کی تعداد میں قتل عام کیا جا رہا ہے ۔ اس کے باوجود ساری دنیا نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ راستے ا بالواسطہ طور پر اسرائیلی کارروائیوں کی حمایت کر رہی ہے۔ مسلسل انسانیت سوز کارروائیوں کے باوجود امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو لگاتار فوجی اور مالی امداد دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ امریکہ اور ساری دنیا کو یہ پتہ ہے کہ ساری امداد نہتے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کی جائے گی اس کے باوجود یہ فراہم کی جا رہی ہے ۔ اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ ساری دنیا اسرائیل کے جنگی جرائم میں برابر کی شریک ہے ۔ نہ علاقہ و خطہ کا کوئی ملک ایسا ہے جو اس طرح کی کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرے یا اسرائیل کو روکنے کی کوشش کرے اور نہ ہی دنیا میں کوئی ملک ایسا رہ گیا ہے جس میں اتنی اخلاقی جراء ت ہو کہ وہ اسرائیل کے خلاف عالمی فورمس کے ذریعہ ہی کوئی فیصلہ کروایا جائے ۔ امریکہ حالانکہ مگرمچھ کے آنسو بہاتا اور وقفہ وقفہ سے اسرائیلی کارروائیوں کی بظاہر مذمت بھی کرتا ہے لیکن اس نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف مذمتی قرار داد تک منظور ہونے نہیں دی اور اس کو ناکام بنادیا ۔
اب حسن نصر اللہ کی شہادت نے دنیا کو ایک پیام دیدیا ہے کہ اسرائیل اپنے جارحانہ منصوبوں کو عملی شکل دینے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیںکر رہا ہے ۔ وہ اب اپنے تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہونچانا چاہتا ہے ۔ اسے دنیا کی مخالفت کی نہ کوئی فکر رہ گئی ہے اور نہ وہ کسی کو خاطر میں لانے کوتیار ہے ۔ اگر دنیا میں انصاف باقی ہے اور انسانیت کیلئے کام کرنے کا حقیقی جذبہ باقی ہے تو ظالم اور غاصب اسرائیل کے خلاف حرکت میں آنا چاہئے ۔ اس پر لگام کسی جانی چاہئے ۔ دنیا میں انصاف کے تقاضوں کو اگر برقرار رکھا جانا ہے تو اسرائیل کو اس کی جارحیت سے روکا جانا چاہئے ۔ یہ ساری دنیا کی ذمہ داری ہے ۔
دہلی میں ٹکراؤ کی کیفیت
دارالحکومت دہلی میں برسر اقتدار عام آدمی پارٹی اور مرکزی حکومت کے درمیان عملا ٹکراؤ کی کیفیت چل رہی ہے ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے اروند کجریوال کی سبکدوشی کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ صورتحال میں کچھ بہتری آئے گی ۔ حکومت اور لیفٹننٹ گورنر کے درمیان تعلقات کچھ حد تک بہتر ہوسکتے ہیں تاہم ایسا نہیں ہو رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں جمہوری عمل پر سوال پیدا ہونے لگے ہیں۔ دہلی میں عوام کی منتخب کردہ حکومت پر مرکزی حکومت کے مسلط کردہ لیفٹننٹ گورنر کو بالادستی دلائی جا رہی ہے ۔ سرکاری کام کاج قواعد و اصولوں کے مطابق نہیں بلکہ گورنر کے احکام کے تابع ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ کل اسٹانڈنگ کمیٹی کے رکن کا جو انتخاب عمل میں آیا ہے وہ اس کی ایک مثال ہے ۔ حالانکہ میونسپل کارپوریشن میں اس طرح کے اجلاس طلب کرنے کا اختیار مئیر کو حاصل ہے ۔ اس کے باوجود گورنر نے اجلاس طلب کیا اور بی جے پی رکن کے انتخاب کو یقینی بنایا ہے ۔ یہ صورتحال وفاقی طرز حکمرانی کیلئے اور ملک کے جمہوری عمل کیلئے اچھی نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت اور دہلی حکومت کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاقی تقاضوں کی تکمیل کے تحت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔