حضرت ابوبکرصدیقؓ کے عہد میں انسانی حقوق کاتحفظ

   

ڈاکٹرظفر دارک قاسمی
نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ
جب اہل نجران کو رسول اللہﷺ کے وصال کی اطلاع ملی جن میں اس وقت بنی الافعی کے جو بنی الحارث سے قبل وہاں متوطن تھے جن کی تعداد چالیس ہزار تھی انھوں نے تجدید معاہدہ کیلئے ایک وفد ابوبکر ؓکے پاس بھیجا یہ وفد ابوبکر ؓکے پاس آیا انھوں نے حسب ذیل فرمان ان کو لکھ کر دیا واضح رہے کہ عہد رسالت میں نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ ہوا تھا اس کی تجدید کیلئے یہ وفد آیا تھا۔ آپ نے بلاچون وچرا اس معاہدہ کی تجدید کرکے یہ ثابت کردیا کہ آپ غیر مذاہب کے ماننے والوں کا خاصا احترام کرتے تھے: بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ فرمان عبداللہ ابی بکر خلیفۃ الرسول کی طرف اہل نجران کےلئے لکھاجاتا ہے میں نے ان کو اپنی اور اپنی فوج کی طرف سے پناہ دی اور جو فرمان رسول اللہﷺ نے ان سے کیاتھا میں بھی اسے تسلیم کرتا ہوں اور اس کی توثیق کرتا ہوں ۔ ان کی جان، مذہب، املاک، حاشیہ متعلقین چاہے وہ اس وقت نجران میں ہوں یا باہر، ان کے پادری، راہب اور گرجا جہاں وہ بنے ہوئے ہیں اور تھوڑی یا زیادہ جس قدر ان کے املاک ہیں ان سب کو ان کے حق میں رہنے دیتے ہیں ۔ بشرطیکہ جوسرکاری لگان مقرر ہے وہ ادا ہوتا رہے اور جب وہ اپنے واجبات پورے کریں تو پھر ان کو نہ جلاوطن کیاجائے نہ ان سے عشر لیا جائے نہ کسی پادری کو اس کے حلقے سے بدلا جائے اور نہ کسی راہب کو اس کی خانقاہ سے نکالاجائے جوکچھ اس تحریر میں لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے لئے محمدﷺ کی ضمانت اور تمام مسلمانوں کی ضمانت دی جاتی ہے اس کے ساتھ اہل نجران کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے خیر خواہ اور وفادار ہیں ۔
ابن صلوبا سے معاہدہ
۱۲ھ میں جب حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن الولیدؓ کوعراق کی فتح کیلئے روانہ کیا تو۔ وہاں پہنچ کر سواء کی بستیوں بانقیا بار وسما اور ایسس میں اُترے یہاں کے باشندوں نے حضرت خالد سے معاہدہ صلح کرلیا۔ آپ سے یہ مصالحت ابن صلوبا نے کی تھی ماخذ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خالد نے ان لوگوں سے جزیہ لینا قبول کیا اور حسب ذیل تحریر ان کو لکھ کر دی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وثیقہ خالد بن ولید کی طرف سے ابن صلوبا سواء باشندوں ساحل فرات کے حق میں لکھاجاتا ہے چونکہ تم نے جزیہ دینامنظور کرلیا ہے اس لیے تم کو خدا کی امان ہے۔ تم نے جزیہ کی یہ رقم ایک ہزار درہم اپنی طرف سے اور اپنے خراج دہندوں، جزیرے اور بانقیا باروسما کے باشندوں کی طرف سے اداکی ہے میں اس کو قبول کرتا ہوں ۔ میرے ساتھ کے تمام مسلمان اس معاہدے پر خوش ہیں آج سے تم کو اللہ، اللہ کے رسول اور مسلمانوں کی حفاظت میں لیاجاتاہے۔
قبیصہ بن ایاس سے مصالحت
حضرت خالدؓ جب اپنی فوج کو لے کر حیرہ پہنچے وہاں کے شرفاء قبیلہ قبیصہ بن ایاس کی سرکردگی میں آپ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے جزیہ دینا قبول کرتے ہیں ؛ چنانچہ حضرت خالد بن ولید نے ان سے نوے ہزار درہم پر مصالحت کردی۔
ان معاہدات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں غیر مسلموں کو ہر طرح کی مراعات سے نوازہ گیا اس کے علاوہ اور بھی معاہدات تاریخ میں مذکور ہیں جو اس بات پر بین ثبوت ہیں کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا تھا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جن علاقوں کو فتح کیا وہاں کے غیر مسلم باشندوں سے متذکرہ بالا معاہدے کیے ان میں وضاحت سے یہ درج ہے کہ جزیہ کے معاملہ میں ان کے مال وجان کی حفاظت ہوتی رہے گی اور جب ان کی حفاظت نہ ہوسکے گی تو ان سے جزیہ نہ لیا جائے گا۔
حقوق انسانی کی حفاظت
اہل حیرہ سے جو معاہدہ ہوا تھا امام یوسف نے اس معاہدہ کو مزید تفصیل سے لکھا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہد صدیقی میں غیرمسلموں کے حقوق کی پوری طرح حفاظت کی گئی۔ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہ کیے جائیں گے ان کا وہ قصر نہ گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہیں ان کو ناقوس اور گھنٹے بجانے کی ممانعت نہ ہوگی۔ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے نہ جائیں گے، کوئی بوڑھا آدمی جو کام سے معذور ہوجائے یا کوئی سخت مرض میں مبتلا ہوکر مجبور ہوجائے یا جو پہلے مالدار ہو پھر ایسا غریب ہوجائے کہ خیرات کھانے لگے تو ایسے لوگوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جب تک وہ زندہ رہیں ان کے اہل وعیال کے مصارف مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کیے جائیں ؛ البتہ وہ کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں تو ان کے اہل وعیال کی کفالت مسلمانوں کے ذمہ نہ ہوگی۔ اس معاہدہ میں اس کا ذکر بھی تھا کہ یہاں کے ذمیوں کو فوجی لباس پہننے کے علاوہ ہر طرح کی پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی۔ بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں اس کی یہ وجہ ہوسکتی ہے کہ مسلمان اور ذمیوں میں فرق باقی رکھ کر ان کی یعنی ذمیوں کی پوری حفاظت کی جائے۔ معاہدہ اس کا بھی تھا کہ وہ مسلمانوں سے دشمنی کا اظہار نہ کریں اور مسلمانوں کے دشمنوں کو مسلمانوں کی ان کمزوریوں سے آگاہ نہ کریں ۔
مدعیان نبوت کے ساتھ برتاؤ
حضرت ابوبکرؓ کے دور خلافت میں مدعیان نبوت کا فتنہ برپا ہوا انھیں میں سے ایک اشعث بن قیس تھا اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جب وہ گرفتار کرکے حضرت ابوبکرؓ کے سامنے حاضر کیا گیا تو اس نے توبہ کی؛ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے نہ صرف ان کو معاف کردیا؛ بلکہ اپنی ہمشیرہ ام فردہ سے ان کا نکاح بھی کرایا۔ طلیحہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ؛لیکن جب حضرت ابوبکرؓ کے پاس معذرت لکھ بھیجی تو ان کا دل آئینہ کی طرح صاف ہوگیا اور ان کو مدینہ واپس آنے کی ا جازت دے دی۔
تحفظ ناموس
جب حضرت مہاجربن امیہ کو یمامہ کاامیر مقرر کیا تو ان کی امارت کے زمانہ میں دوگانے والی عورتوں میں سے ایک نے رسول اللہﷺ کی ہجو میں گاناگایا اور دوسری نے گانے میں مسلمان کو بُرا کہا۔ حضرت مہاجربن امیہ نے سزا میں ان کے ہاتھ کاٹ دئیے اور دانت اکھڑوادئیے ، حضرت ابوبکرؓ کو یہ معلوم ہوا تو سخت برہمی کااظہار کیا ان کو لکھ بھیجا کہ اگر رسول اللہﷺ کی ہجو کرنے والی عورت اسلام کی پیرو ہے تو وہ مرتدہ ہوگئی اس کو ارتداد کی سزا ملنی چاہیے تھی اور اگر وہ ذمیہ تھی تو اس نے خلاف عہد کیا؛ لیکن جس عورت نے مسلمانوں کو بُرا بھلا کہا اس کو کوئی سزا نہ دینی چاہیے تھی کیوں کہ اگر وہ مسلمان عورت ہے تو اس کو صرف معمولی تنبیہ کرنے کی ضرورت تھی اور اگر وہ ذمیہ ہے تو جب اس کی مشرکہ ہونے کو گوارا کرلیا گیا تو مسلمانوں کو بُرا کہنے کی کیا سزا ہوسکتی ہے۔ بہرکیف یہ تمہاری پہلی خطا تھی اس لیے معاف کردیاجاتا ہے۔ مثلہ کرنا نہایت نفرت انگیز گناہ ہے صرف قصاص کی حالت مجبوراً مباح ہے۔
ماخذ یہ بھی بتاتے ہیں کہ عہد رسالت میں غیر مذاہب کے پیرو کو اسلامی ممالک مفتوحہ میں پناہ اور ان کے تمام حقوق کا تحفظ فرمایا تھا ، چنانچہ عہد صدیقی میں نہ صرف ان حقوق کو قائم رکھابلکہ دستاویزی شکل میں اس کی توثیق فرمائی۔ اور ان کے جو ممالک فتح ہوئے وہاں کی ذمی رعایا کو وہی حقوق دیئے جو مسلمانوں کوحاصل تھے۔( حوالے وحواشی:الطبقات الکبری،کنز العمال ، اصابہ فی تمیر الصحابہ، ابن ہشام، السیرۃ النبویۃو دیگر )