حضرت امام حسنؓ: صلح و قربانی کا عظیم استعارہ

   

Ferty9 Clinic

حافظ محمد صابر پاشاہ
حضرت امام حسن بن علیؓ، نواسۂ رسول ﷺ، جگر گوشۂ بتولؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ کے فرزند ہیں۔ آپؓ کا نام حسن اور کنیت ابو محمد ہے۔ آپ کا نام اور کنیت دونوں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہیں۔ آپ کو ریحانۃ النبی ﷺ اور شبیہ النبیؐ جیسے قابل اعزاز القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ سر سے لے کر سینہ مبارک تک حضور ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔آپؓ کی ولادت ۱۵ رمضان المبارک ۳ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ رسول اکرم ﷺ نے آپؓ کو بچپن ہی سے محبت و شفقت سے نوازا اور اپنی زبان سے آپؓ کو ’’سید‘‘ یعنی سردار قرار دیا۔حضرت امام حسنؓ اخلاق و کردار، حلم و بردباری اور فیاضی میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر اوڑھائی اور اہلِ بیت کے دیگر افراد کے ساتھ مباہلہ کے موقع پر شریک کیا، جو آپ کی عظمت و فضیلت کا روشن ثبوت ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا‘‘۔(صحیح بخاری)یہ پیشین گوئی بعد میں حرف بہ حرف پوری ہوئی، جب امام حسنؓ نے مسلمانوں کے اتحاد اور خونریزی کے خاتمے کے لیے اپنی حکومت ترک کر کے تاریخ میں ایک بے مثال صلح قائم کی۔حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد۴۰ ہجری میں حضرت حسنؓ مسندِ خلافت پر فائز ہوئے۔ ابتدائی طور پر آپؓ نے ۶ ماہ خلافت کی ذمہ داری نبھائی، لیکن حالات اس قدر پیچیدہ تھے کہ دو بڑی اسلامی جماعتیں آمنے سامنے تھیں:ایک طرف کوفہ اور عراق کے لوگ امام حسنؓ کے حامی تھے۔دوسری طرف شام میں حضرت معاویہؓ کا اثر و نفوذ تھا۔خانہ جنگی کے امکانات بڑھ رہے تھے، اور خونِ مسلم ارزاں ہو رہا تھا۔ ایسے میں حضرت حسنؓ نے عظیم قربانی پیش کرتے ہوئے اقتدار چھوڑ کر مسلمانوں کی وحدت کو ترجیح دی۔ یہ معاہدہ تاریخ میں صلح حسن کہلاتا ہے۔ اس صلح کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کی جان بچ گئی اور امت مسلمہ ایک بڑے فتنہ سے محفوظ ہوگئی۔
حضرت امام حسنؓ کی پرورش و تربیت آغوش مصطفی ﷺ میں ہوئی تھی جس وجہ سے آپؓ اعلیٰ اخلاقی خصوصیات کے حامل تھے۔ زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت، عفو و درگزر، حق گوئی و بے باکی اور جرات و شجاعت جیسی صفات آپؓ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ دن کو اکثر روزہ رکھتے اور رات سجود و قیام میں بسر کرتے۔ اسلام کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری اپنے نانا جان سے سیکھی تھی۔ اسی لیے صلح جوئی اور اتحاد امت کا باعث بنے تھے۔ قرآن مجید سے گہرا قلبی و روحانی تعلق تھا فقرو غنی، ایثار و قربانی، علم و فضل اور عدل و احسان زندگی کا معمول تھا۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ’’امام حسنؓ سے بڑھ کر کوئی بھی حضور اکرم ﷺ سے مشابہت رکھنے والا نہ تھا۔ ‘‘آپؓ اپنے نانا جان کی طرح بہت سخی تھے ایک ہی وقت میں لاکھوں درہم غربا میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے ایک باغ چار لاکھ درہم میں خریدا بعد میں پتہ چلا کہ باغ کا مالک غریب ہوگیا ہے تو آپؓ نے وہ باغ مفت میں اس کو واپس کردیا۔ آپؓ نہایت بردبار اور حلیم تھے۔ حضرت معاویہؓ سے صلح اس بات کا عملی ثبوت ہے۔ جو شخص آپ سے ایک بار مل لیتا تھا وہ ساری زندگی آپ سے دور نہیں ہوتا تھا۔
آپؓ نے ظاہری و باطنی علوم اپنے نانا رسول خد ﷺ سے حاصل کیے تھے۔ صبرو سخاوت نانی حضرت خدیجہؓ سے ورثے میں ملی تھی۔ شرافت نیکی اور عفت و عصمت اپنی والدہ حضرت فاطمہؓ سے منتقل ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ بھی آپؓ سے بہت محبت فرماتے تھے۔حضور اکرم ﷺ حضرت حسنؓ کے بارے میں فرماتے تھے کہ اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے تو بھی محبت فرما۔ یہ بات فرماکر آپؓ نے حضرت حسنؓ کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لیا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: ’’حضرت حسنؓ آپ ﷺ کی گود میں بیٹھ کر آپ ﷺ کی داڑھی مبارک میں اُنگلیاں ڈال رہے تھے اور آپ ﷺ اپنی زبان ان کے منہ میں دیتے اور فرماتے اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔ ‘‘حضرت حسنؓ حضور اکرم ﷺ کی طرح نہایت حسین و جمیل اور خوبصورت تھے۔ آپؓ سر سے سینہ تک حضور اکرم ﷺ کے مشابہ تھے اور سینہ سے پاؤں تک حضرت علی المرتضیٰؓ کے مشابہ تھے۔
حضرت امام حسنؓ کی زندگی امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم پیغام ہے کہ اتحاد اور امن کو ذاتی مفاد اور اقتدار پر مقدم رکھنا اصل اسلامی مزاج ہے۔ آپؓ نے اپنی خلافت قربان کر کے تاریخ کو یہ سبق دیا کہ طاقت نہیں بلکہ حکمت اور قربانی ہی حقیقی قیادت کا معیار ہے۔