ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی
حضرت امام غزالی ؒ اسلامی تاریخ کا وہ درخشاں ستارہ ہے جس کی کرنیں چوتھی صدی ہجری کے درمیان دنیائے اسلام میں نمودار ہوئیں۔ آپؒ کے فکر انگیز نظریات مسلم دنیا پر وہ گہرے نقوش چھوڑے ہیں جو آج بھی اسلامی فلسفہ، علم و حکمت، تصوف و روحانیت ، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی اصلاح کے لئے اساسی یعنی بُنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
امام غزالی علیہ الرحمہ کے غیر معمولی حافظہ نے ان کو علم کے زینے پر چڑھنا دوسروں کی نسبت آسان کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ کے اندر موجود علمی تحصیل کی جستجو آپؒ کو بے چین رکھتی تھی۔ امام غزالی کے قلمی شاہکار: حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپؒ نے درس و تدریس کا کام بھی کیا۔ بادشاہوں کے دربار میں بھی علمی مباحث کا حصہ بنے اور اس سے بڑھ کر علمی میدان میں قلم سے اپنے رشتے کو مربوط رکھتے ہوئے بے شمار کتب تصنیف کیں اور اصلاح معاشرہ، اسلامی فلسفہ اور دیگر باطل خیالات و افکار کو موضوع بحث بنایا ۔
احیاءالعلوم کی تصانیف: ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم تصنیف کی اور دمشق میں کتاب مذکور کو ہزاروں شائقین نے خود انہی سے پڑھا ۔ مدتوں اگر ان پر جذب و محویت طاری رہی تو برسوں وہ سلوک کے عالم میں بھی رہے اور اس زمانے میں وہ ہر قسم کے علمی اشغال میں مصروف رہتے تھے۔
چند مشہور تصانیف: امام صاحب کی چند نامور تصانیف کے نام یہ ہیں:احیاءالعلوم، حجۃ الحق، اسرار الانوار ،الرسالۃ القدسیہ،بیان فضائح، عقیدۃ المصباح، قواعد العقائد، تلبیس ابلیس اور کیمیائے سعادت وغیرہ۔
امام غزالی ایک ہمہ گیر شخصیت: امام غزالی کی ہمہ گیر شخصیت نے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا ہے۔امام کو تحصیل علم کے بعد نظام الملک کے دربار میں پیش ہونے کا موقع ملا اور آپؒ نے وہاں اپنے آپؒ کو مسائل پر گہری نظر رکھنے والا فقیہ ، لطیف نکات کو عمدگی سے بیان کرنے والا متکلم اور فکر و دانش سے بھرپوراور دلائل سے لیس فلسفی کی حیثیت سے منوایا۔ اس دوران آپؒ نے فلسفہ، منطق، علم کلام اور تصوف وغیرہ پر شہرہ آفاق تصانیف تحریر کیں اور باطل نظریات کا پردہ چاک کیا۔اس اہم کام کی انجام دہی سے پہلے آپؒ نے مکمل طور پر ان علوم کا مطالعہ کیا جن سے آپؒ کو سابقہ پیش آنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپؒ نے ان موضاعات پر ماہرانہ انداز میں قلم اٹھایا۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع شخصیت اور علمی کمالات کا سبب تھا کہ اس نے عالم اسلام پر اپنی فکر کے گہرے اثرات چھوڑے اورعلمی حلقوں میں ایسی ذہنی و فکری حریت پیدا کردی کہ اسلامی دنیا اس سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ اہل فلاسفہ پر جو چوٹ کی تو طویل عرصہ اس تنقید کا جواب دینے والاا ہل عقل کو نہ مل سکا جو ان فلسفوں کواپنی بقاءکے لیے نئی بنیاد فراہم کرتا۔
اللہ تعالیٰ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے علم سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین