حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ

   

حافظ محمد سعیدالدین نظامی
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ جلیل القدر صحابی رسول ، کاتبِ وحی اور آنحضرت ﷺ کے برادر نسبتی تھے ۔ سیدنا عمر فاروقؓ ، سیدنا عثمان غنیؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے معتمدِ خاص تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ خلافتِ صدیقیؓ ، خلافتِ فاروقیؓ اور خلافت عثمانیؓ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ۔ آپ فقیہہ صحابی تھے ، آپ کا حلم تمام اُمت میں مشہور تھا ۔ سیدنا امیر معاویہؓ کی فتوحات ، عسکری نظام مملکت نظم و نسق ، معاشی و اقتصادی اصطلاحات ، تدبیر و سیاست ، فہم و فراست ظرافت و خطابت اور عدل و انصاف بے مثال تھا۔نبی کریم ﷺ نے آپ کے لئے دعا فرمائی : ’’اے اﷲ ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادیجئے اور اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دیجئے ‘‘ ۔ ( جامع ترمذی )
نام و نسب اور خاندان : نام معاویہ کنیت ابوعبدالرحمن تھی ۔ آپ کے والد ماجد صخر اور کنیت ابوسفیان تھی اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ والدہ محترمہ حضرت ہندہ تھیں ، یہ دونوں فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے۔ والد ماجد کی جانب سے سلسلہ نسب یوں ہے : معاویہ بن سفیان بن حرب بن اُمیہ بن عبدشمس بن عبدمناف ، اسی طرح آپ کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم تک جاملتا ہے ۔ والدہ ماجدہ کی جانب سے سلسلۂ نسب یوں ہے : حضرت ہندہ بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس بن عبدمناف ۔ نبی کریم کی زوجہ محترمہ اُم المؤمنین سیدہ اُم حبیبہ سیدنا معاویہؓ کی بہن تھیں۔
قبول اسلام : حضرت امیر معاویہؓ ظاہری طورپر فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ اس سے قبل ہی اسلام قبول کرچکے تھے ۔ چنانچہ مشہور واقدی کہتے ہیں : ’’حضرت معاویہؓ صلح حدیبیہ کے دن اسلام لائے مگر آپ نے اسلام کو چھپائے رکھا اور فتح مکہ کے دن ظاہر کیا‘‘ ۔ ابن سعد کہتے ہیں : حضرت معاویہؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں عمرۃ القضاء کے روز ایمان لایا تھا لیکن اپنے والد کے ڈر سے اپنے ایمان کو فتح مکہ تک چھپائے رکھا۔ (البدایہ و النھایہ) یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر معاویہؓ بدر ، اُحد ، خندق اور غزوۂ حدیبیہ کے معرکوں میں کفار کی جانب سے شریک نہ ہوئے ۔ حالانکہ آپ جوان تھے ۔ آنحضرت ﷺ کے دور میں مختلف غزوات میں شرکت کی اور کفار سے جہاد کیا ۔ آپؓ نے آنحضرت ﷺ کے ہمراہ غزوۂ حنین میں بھی شرکت فرمائی ۔
کتابت وحی کے فرائض : سیدنا امیر معاویہؓ کو بارگاہ رسالت سے کتابت وحی کا منصب عطا ہوا ۔ جو وحی آپؐ پر نازل ہوتی اسے قلمبند فرماتے اور جو خطوط و فرامین حضور اکرم ﷺ کے دربار سے جاری ہوتے، انھیں آپ تحریر فرماتے ۔
حضرت امیر معاویہؓ کی وفات : جمعرات ۲۲؍ رجب المرجب ۶۰؁ھ کو اس جہاں فانی سے عالم جاودانی کی جانب رخصت ہوئے ۔ آپ نے ستر(۷۰) سال کی عمر پائی ۔ آپ کی نماز جنازہ ضحاک بن قیس نے پڑھائی ۔ دمشق میں مدفون ہوئے ۔ (تاریخ اسلام )