حضرت سیدنا میرابوالعلااحراری ؒ

   

صوفی شاہ محمد مظفر علی چشتی ابوالعلائی

گیارہویں صدی ہجری کے مقبول زمانہ بزرگ حضرت سیدنا میرابوالعلااحراری نقشبندی چشتی ؒجن کی ولایت و کرامات اور خوارق وعادات سے ایک زمانہ روشن ہے۔ آپ سلسلہ ابوالعلائیہ کے بانی اور عہد شاہجہانی کے مشہور صوفی گذرے ہیں۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے ۔ آپ کی ولادت ۹۹۰ہجری مطابق ۱۵۹۲؁ء میں دہلی کے قریب قصبہ نریلہ میں ہوئی۔آپ میر صاحب اور سرتاجِ آگرہ جیسے خطاب سے مشہور ہیں۔ والد کانام امیر ابوالوفا اور والدہ بیگم بی بی عارفہ تھیں۔خواجہ معین الدین چشتی سے آپ کو فیضان اویسی ملا ہے اور اُنھیں کے حکم سے اپنے چچا امیر عبد اللہ نقشبندی سے مرید ومجاز ہوئے کچھ عرصہ بعد چچامحترم نے خلافت سے نواز کر آپ کو خاندانی تبرکات تفویض فرمائے۔ ہندوستان میں سلسلہ نقشبندیہ کی دو شاخ کافی مشہور ہوئی پہلی سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ اور دوسری سلسلہ نقشبندیہ ابوالعلائیہ۔ آپ نے حصول بیعت و خلافت کے بعد آخری دم تک خلق اللہ کی خدمت اور رشد وہدایت میں اپنی عمر گزاردی۔آپ عجز و انکساری اور اخلاق محمدی کا ایک مکمل نمونہ تھے۔ مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی انفاس العارفین میں ایک جگہ سیدنا سے متعلق تحریر فرماتے ہیں:’’ان کے اعمال میں احکام شریعت کی بال برابر بھی کمی نہیں تھی‘‘۔ آپ اکثر ارشاد فرماتے تھے: ’’ خدا کے بندوں کو تکلیف دینا اچھا نہیں بلکہ ان کو راحت پہنچانا چاہئیے‘‘۔حضرت کی عادت تھی کہ موسم بہار میں اکثر اپنے مریدین اور احباب کے ساتھ کشتی میں سوار ہو کر دریائے جمنا کے اس پار ایک باغ کی سیر کے لئے تشریف لے جاتے تھے جس کا نام باغِ نورافشاں تھاایک مرتبہ دریاکے کنارے ایک جوگی سے ملاقات ہو گئی وہ حضرت کے روئے انور کا جمال دیکھ کر آپ کا شیدا ہو گیا اور ایک ڈبیا حضرت کے نذر کی ۔ حضرت نے دریافت فرمایا کہ اس میں کیا ہے ؟ جوگی نے عرض کیا کہ اس میں اکسیر ہے اگر اس میں سے تھوڑی لے کر تانبے پر رکھ دیں تو تانبا سونا ہوجائے ۔ آپ نے اس ڈبیا کو دریائے جمنا میں پھینک دیا اور فرمایا جوگی جی انسان خودا کسیر ہے اس کو پھر دوسری اکسیر کی کیا ضرورت ہے ۔ جوگی آپ کی اس لا پروائی اور استغناء پر متعجب و حیران ہوا اور باتیں کرتے ہوئے آپ کے ساتھ ہو گیا۔ دوران گفتگو میںاس نے عرض کیا حضرت میری ساری عمر کی کمائی آپ نے دریا میں ڈالدی اب میں حیران ہوں کہ کیا کروں۔ آپ نے دریافت کیا کہ اچھا بتاؤ اکسیر کیسی ہوتی ہے ؟ اُس نے جواب دیا کہ خاک جیسی پھر حضرت نے فرمایابس خاک کے لئے اتنا غم کرتے ہو یہ جمنا کی ریت سب خاک ہی خاک ہے جتنی چاہو لے لو اور سونا بنا لو اس نے خوش طبعی کے طور پہ ذرا سی ریت تانبے پر رکھی دیکھا تو واقعی سونا ہو گیا۔ اس کے بعد جو گی آپ کے ساتھ ہو گیا اور فیض صحبت سے متاثر ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ آپ کا وصال بہ وقت نماز اشراق بروز سہ شنبہ ۹ صفر المظفر ۷۱ برس کی عمر میں ۱۰۶۱ھ؁ کو آگرہ میں ہوا، ہر سال اسی تاریخ میں آپ کا عرس منعقد کیا جاتا ہے۔