حضرت سید شاہ درویش محی الدین ثانی قادریؒ

   

پیرزادہ سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی
ولی کی تعریف میں بزرگوں نے تحریر فرمایا ہے کہ ولی ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی بشری قوت و طاقت کی حیثیت سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات و صفات کا جاننے والا ہو اور ظاہری و باطنی اعتبار سے عبادت واطاعت کا پابند ہو اور شریعت محمدی ﷺ کے خلاف عمل سے بچنے والا ہو۔اللہ والوں کی جماعتیں ہندوستان میں بے شمار آئیں ان میں صوفیائے سلسلہ عالیہ قادریہ کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حضرت سید شاہ درویش محی الدین قادری قدس سرہ العزیز کا شمار دکن کے ایسے ہی عظیم المرتبت صوفیائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب باب العلم فاتح خیبر حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے اور (۱۹) واسطوں سے حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیرؓ سے جاملتا ہے۔ آپ کے والد بزرگوار کا اسم مبارک حضرت سید شاہ عبدالمحی الدین قادریؒ اور جد محترم کا نام نامی حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادریؒ ابن حضرت سید شاہ عبداللطیف لاابالیؒ جو قطب الآفاق حضرت سیدنا تاج الدین عبدالرزاق قادریؒ ابن حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیرؓ کی اولاد سے ہیں۔ آپ نے اپنے جد بزرگوار کی رحلت کے بعد اپنے حقیقی چچا حضرت سید شاہ عبداللطیف ثانی قادریؒ ابن حضرت سید شاہ پیر شاہ محی الدین ثانی قادریؒ کے دست مبارک سے جو آپ کے جد امجد کے قائم مقام تھے خرقہ خلافت اور اجازت مطلقہ حاصل کیا اور عم محترم کی وفات کے بعد مسند سجادگی پر رونق افروز ہوئے تو ایک عالم آپ کے فیض سے مرتبہ ولایت پر فائز ہوا۔ (۳۴ سال) کی مدت تک آپ مریدوں کی تعلیم میں مشغول رہے۔حضرت بحر حقائق اور دریائے علم و معرفت تھے اور آپ کے کلام سے توحید کی بارش ہوتی تھی۔ آپ نے اکثر اپنے مریدین کے لئے تصوف ارشاد اور تلقین کے مضامین اپنے مکتوبات میں تحریر فرمائے ۔ آپ کی وفات ۲۴؍ذی الحجہ ۱۱۵۴؁ھ کو ہوئی آپ کا مرقد انور بیرون شہر حیدرآباد دکن کاروان ساہو کے متصل شہر کے مغرب جانب زیارت گاہ خلق ہے۔ آپ کی رحلت کے بعد نورنجان عالم مرحوم نے آپ کی مرقد پر روضہ تعمیر کیا ۔جب حضرت ممدوحؒ کا وصال ہوا تو فاتحہ کے بعد صاحبزادے لوگوں کے سامنے قفل مذکور کو کھولا تو اس صندوق میں سے آپ کے دو خاص جبہ ، تین کلاہ مبارک اور ایک خاکِ شفاء سے بنی تسبیح برآمد ہوئی یہ بھی آپ کا تصرف تھا کہ آپ کے وصال کے وقت کچھ باقی نہ تھا۔ عرس شریف ہر سال ۲۳؍ اور ۲۴؍ذی الحجہ کو منعقد کیا جاتا ہے ۔