امریکہ اور مغربی دنیا میں ’’دھریت‘‘ انکار وجود باری تعالیٰ کی تیز تند آندھی کی لپیٹ میں ’’ مذہب ‘‘ شدید طور پر جھلس رہا ہے جس سے عیسائی مذہب بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ مغرب کا نوجوان ’’ مذہب کو قید و بند سمجھنے لگا ہے‘‘ ۔ ہر چیز کو عقل و فہم اور خواہش و منشاء کے مطابق سوچنے کے نظریہ ، مختلف تہذیبوں کے تصادم ، مادہ پرستی کے فروغ ، معاشرہ میں بڑھتے ہوئے ذہنی تناؤ ،نفسا نفسی کا رجحان نئی نسل پرمنفی اثر چھوڑ رہا ہے ۔ مزید یہ کہ اسکولس وکالجس کا نصابِ تعلیم ، مقررہ مواد اور نظام تعلیم طلبہ کے ذہنوں کو مذہب بیزار بنانے میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے ۔ اس ماحول میں پروان چڑھنے والی مسلم نسل سے کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دھریت کی قیامت خیز لہروں سے محفوظ رہے ۔ جبکہ ان کے والدین اور سرپرست بھی مغربیت سے متاثر ہوں اور دین و مذہب سے دور ہوں ۔ علاوہ ازیں اولاد کی ذہنی سطح کے مطابق ان کی بروقت رہنمائی کرنے سے قاصر ہوں تو لامحالہ برے نتائج ظاہر ہوں گے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج امریکہ اور مغربی ممالک میں کئی مسلم نوجوان نہ صرف دین سے بیزار ہورہے ہیں بلکہ وجود باری تعالیٰ کے منکرین کی صف میں کھڑے ہورہے ہیں ۔ اس بناء پر امریکہ کے طول و عرض میں منعقد ہونے والے دینی اجتماعات ، سمینارس اور کنونشن کا مرکزی موضوع ’’ نئی نسل کو دھریت کے چیالنجس سے بچانا ہے ‘‘ ۔ مخفی مبادکہ ہند و پاک کے دینی مدارس و جامعات سے فیضیاب ہونے والے مذہبی قائدین ائمہ و خطباء امریکہ و یورپ میں مقامی نوجوانوں کو متاثر کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور وہ نئی نسل کی ذہنی کشمکش کو سمجھ کر ان کے فہم اور ان کے زاویہ نظر کے مطابق اسلام کی تفہیم معقول انداز میں پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ امریکہ و یورپ میں دیسی علماء کے بجائے امریکہ و یورپ میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے علماء کو ترجیح دی جارہی ہے تاکہ نوجوان نسل کی عقل و فہم کے معیار پر رہنمائی کی جاسکے ۔
مندرجہ بالا تمہید سے واضح ہے کہ عصر حاضر میں دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے کارگر و موثر ہونے کیلئے علماء و مذہبی قائدین کا علوم جدیدہ اور فلسفہ جدیدہ ، سائنس سے واقف ہونا ضروری ہے کیونکہ موجودہ زمانے میں اسلام پر اعتراضات عقلی بنیاد پر کئے جارہے ہیں اور اسلام کو ایک غیر فطری اور انسانیت کی ترقی میں سدراہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ ماضی کے برعکس آج نہ صرف عقیدہ اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ اسلام کے ایک ایک حکم ، نکاح طلاق ، لین دین ، جہاد ، پردہ ، غلامی ، غرض تمام احکام شریعت پر اعتراض ہورہے ہیں حتی کہ مسلمانوں کے رہن سہن اور طرز معاشرت کو تک مذہب سے جوڑ کر انگشت نمائی کی جارہی ہے ۔
واضح رہے کہ علم کلام اسلام کے دینی علوم میں سے ایک علم ہے جس کا مقصد عقائد دینیہ کو دلائل عقلیہ کے ذریعہ پایہ ثبوت تک پہنچانا اور مخالفین کے شکوک و شبہات کو دور کرنا ہے ۔ فارابی نے ’’ احصاء العلوم‘‘ میں علم الکلام کو علوم کی ایک ایسی شاخ قرار دیا ہے جو انسان کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ شارع کے وضع کردہ عقائد کو فاتح ثابت کرسکے اور اس کے مخالف آراء کو رد کرسکے ۔ ( اردو انسائیکلوپیڈیا جلد ۱۴؍۱ ص۷۳)
خلاصہ یہ ہے کہ مذہب اسلام کو عقلی طور پر ثابت کرنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ ہے ، علم الکلام کہلاتا ہے اور قرآن مجید کا یہی اسلوب و طریقہ ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد مثلاً توحید ، نبوت اور بعث بعد الموت کو عقلی طور پر سمجھایا ہے نیز ادیان عالم اور اقوام کے عقائد و نظریات کو غیرمعمولی ثابت کیا ہے ۔ علاوہ ازیں قرآن مجید کے دلائل جس طرح خطابی اور اقناعی ہیں یعنی عام سے عام آدمی کو بھی مطمئن کرنے والے ہیں اسی طرح وہ قیاسی اور برہانی بھی ہیں یعنی وہ عقل و قیاس اور منطق کے اصول و معیار پر پورے اترتے ہیں ۔ علم الکلام کو علم التوحید ، علم اصول الدین ، علم الفقہ الااکبر ، علم الایمان اور علم الاسماء و الصفات بھی کہتے ہیں ۔ اس علم کے ذریعہ مذہب حق کو عقلی طور پر ثابت کیا جاتا ہے اور مختلف ادیان و خلل کے ماننے والوں کا فلسفیانہ نقطہ نظر سے دلائل و براھین کی روشنی میں رد کیا جاتاہے ۔
احمد امین نے علم الکلام کی وسعت کے پیش نظر اسے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ (۱)الہیاتی مسائل جیسے اللہ تعالیٰ ، ذات ، صفات و افعال ، انبیائو رسل (۲) اس قسم کا زیادہ تر تعلق طبیعیات اور کیمیاسے ہے مثلاً جوہر ، عرض ، جزء لاتیجزی حرکت و سکون ،رنگ ، بو ، مزہ (۳) علم کلام کی سیاسی قسم ہے جسے دینی رنگ دیا گیا مثلاً امام کون ہوسکتا ہے ، امامت کے شرائط ہیں عباسی اور اُموی بطور امام کیسے تھے ۔(۴) یہ قسم عقلی ہے مثلاً خیر و شر کی بحث ، انسانی ارادہ و اختیار کا مسئلہ احکام کا عقلی طور پر حسین و قبیح ہونا (ظھرالاسلام ۴:۲۔۳)
عہدخلافت راشدہ کے بعد جب مسلمانوں میں سیاسی اختلافات شدت اختیار کرگئے خصوصاً خوارج ، بنوامیہ اور شیعہ کے اختلافات بڑھنے لگے تو ان کے مابین فکری او اعتقادی بحث و مناظرہ میں شدت آگئی ، متعدد فرقے مثلاً جبریہ ، قدریہ ، مرجئہ وغیرہ ظاہر ہوئے اور ان میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے فرقہ معتزلہ کے افکار و نظریات تھے ۔ گرچہ مذہب اعتزال کا ظہور دور اموی میں ہوچکا تھا لیکن اس کے عروج و ترقی کا زمانہ عہد عباسیہ کو قرار دیا جاتاہے ۔ اس مکتب فکرکی ابتداء و اصل بن عطاء ( م ۱۳۱ھ ) سے ہوئی ۔ اس کا کہنا تھا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ مطلق مومن رہتا ہے اورنہ وہ مطلق کافر ہوتا ہے بلکہ اسکا مقام ایمان اور کفر کے درمیان ہے ۔ واضح بادکہ شیعہ حضرات مسائل کلامیہ میں زیادہ تر معتزلہ کے ہم لوا معلوم ہوتے ہیں ۔
فرقہ ہائے باطلہ کے افکار و نظریات کی تردید میں اہلسنت و الجماعت میں دو عظیم الشان مکاتب فکر ظاہر ہوئے (۱) اشعریہ جس کے بانی امام ابوالحسن علی بن اسمعیل الاشعری (۲۶۰تا ۳۳۰ھ ) ہیں ۔ زیادہ تر شوافع ان کے متبعین ہیں ۔(۲) ماتر یدیہ اس کے سرخیل امام ابو منصور محمد بن محمد بن احمد الماتریدی السمر قندی (م ۳۳۳ھ ) ہیں ۔ حنفی فقہ ، اہلسنت والجماعت کے بہت عظیم متکلم اور معتزلہ کے سخت مخالف گزرے ہیں ۔ اکثر احناف آپ ہی کے متبعین ہیں ۔
اہلسنت والجماعت کے ان دو عظیم الشان مکاتب فکر میں ہر دورمیں بڑے بڑے فلسفی اور اونچے درجے کے متکلم پیدا ہوئے ہیں ۔ انہی متکلمین اور فلاسفہ کی نورانی فہرست میںایک اہم نام گرامی حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی خان بہادر فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ نوراللہ مرقدہ کا ہے ۔ آپ کی تصانیف کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آپ بیک وقت فلسفی بھی تھے اورمتکلم اسلام بھی ۔
اگرچہ متکلمین اور فلاسفہ کے طریق کار میں فرق ہے چنانچہ متکلمین اسلام کے قواعد اساسیہ پر ایمان رکھتے ہوئے ان کیلئے دلائل و براھین مہیاکرتے ہیں جبکہ فلاسفہ ان مسائل پر اس انداز سے غور و فکر کرتے ہیں جیسا کہ دلائل و براھین کا تقاضہ ہے ( ابن خلدون : مقدمہ ص : ۴۶۶) تاہم حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ کی تحریرات میں جہاں ہمیں متکلمین کے نہج کے مطابق فرق باطلہ کی قرآن و حدیث اور سلف صالح کے اقوال کی روشنی میں تردید ملتی ہے تو وہیں عقلی طور پر بھی رد بلیغ نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ آپ کی تحریرات میں فلسفہ کے موضوعات الٰھیات اور مابعد الطبیعیات پر بھی گفتگو نظر آتی ہے ۔
حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ وا لرضوان کے عہد میں برطانوی سامراج کے بڑھتے قدم کے سبب عیسائی مشنری اور مغربی کلچر تیزی سے فروغ پارہا تھا اور یہ باور کرایا جارہا تھا کہ مغرب کے علوم جدیدہ اور فلسفۂ جدیدہ نے مذہب اسلام کو ختم کر کے رکھ دیا ہے یعنی مذہب اسلام میں علوم جدیدہ اور فلسفہ جدیدہ کا کوئی حل اور جواب نہیں نیز اسلام کے معتقدات ، عبادات ، معاملات پر عقلی اعتراضات شروع ہوگئے تھے ۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اہل اسلام کی صفوں میں بعض ایسے افراد بھی تھے جو مغرب کی عقلی چمک دمک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسلام کی ہر چیز کو عقل کے مطابق ظاہر کرنے کیلئے نامعقول و غیر مقبول تاویلیں شروع کردیئے تھے اور اس کو جدید علم الکلام کا نام دے دیا تھا جس کے روح رواں سرسید احمد خان تھے ۔ حضرت شیخ الااسلامؒ نے جہاں فرق باطلہ شیعہ خوارج ،معتزلہ ، قادیانیت ، وھابیت غیر مقلدیت… (سلسلہ سپلیمنٹ کے صفحہ ۲ پر )
سلسلہ سپلیمنٹ کے صفحہ اول سے …
حضرت شیخ الاسلام …
دھریت اور نیچریت کا اسلامی اور عقلی طور پر ردبلیغ فرمایا ، وہیں سرسید احمد خان جیسے افراد کی بھی سخت تنبیہ کی ۔ واضح رہے کہ حضرت شیخ الاسلام کا علم الکلام یعنی حق کو ثابت کرنے اور باطل کی تردید میں بعینہ وہی اسلوب ہے جو حضرت امام ابو منصور ماتریدی علیہ الرحمہ کا ہے ۔ یعنی امام ماتریدی قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ عقل پر بھی اعتماد کرتے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ نور شریعت سے منور ہو اور ان کے نزدیک فقط انہیں احکام عقلیہ سے استناد جائز ہے جو شرعیت حقہ کے خلاف نہ ہو ۔ چنانچہ حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ شریعت کے کل احکام کو عقل کے مطابق تاویل پیش کرنے والوں کی تردید فرماتے ہیں :’’ جب اہل اسلام کے نزدیک مسلمہ ہے کہ ہمارا دین وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے تو قرآن و حدیث جو راہ بتلائیں اسی راہ پر عقل کو چلانا اور اس کے مطابق اعتقاد رکھنا لازم ہے کیونکہ تصدیق اسی چیز کی مطلوب ہوا کرتی ہے کہ جس کو عقل باور نہ کرے ، ورنہ ان اُمور کی تصدیق طلب کرنا جو مطابق عقل ہوں تحصیل حاصل ہے مثلاً کوئی کسی سے کہے کہ آفتاب روشن ہونے کی تصدیق کرو اور اس پر ایمان لاؤ تو یہ درخوات فضول سمجھی جائے گی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث میں معمولی عقلوں کے خلاف اُمور بھی ہیں اور ان سب کو بصدق دل ماننے اور تصدیق کرنے والے کو مومن اور ایماندار کہتے ہیں جن کی تعریف میں حق تعالیٰ یومنون بالغیب فرماتا ہے۔ (کتاب العقل ص ۔۳ ) حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمتہ و الرضوان کی دوررس نگاہوں نے آنے والے عقلیت اور دھریت کے فتنوں کا اندازہ کرلیا تھا ۔ چنانچہ آپ نے جامعہ نظامیہ میں جو نصاب تعلیم کو منظور فرمایا وہ انہی حالات کے پیش نظر تیار کیا گیا تھا جبکہ عالم اسلام کی عظیم درسگاہوں کے نصاب یورپ و مغربی ممالک کی قد آور یونیورسٹیز کا نصاب ہند و پاک میں رائج نصاب تعلیم آپ کے پیش نظر رہا ، بعد غور وخوص آپ نے جامعہ نظامیہ کے نصاب میں عقلیات کو غایت درجہ اہمیت دی ۔ حکمت جدیدہ ، علم المناظرہ کو داخل نصاب فرمایا ۔ علاوہ ازیں علم الکلام اصول فقہ ہی کا ایک حصہ ہے اور جامعہ نظامیہ کے نصاب میں اصول فقہ کی انہی کتابوں کو شامل فرمایا جو عقلی اور منطقی اعتبار سے زیادہ موثر ہیں ۔آج امریکہ جن فتنوں کو محسوس کررہا ہے اس کے سدباب کیلئے حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ نے (۱۵۰)سال قبل جماعت کی جماعت تیار کرنے ایک بے مثال نصاب تعلیم کو مقرر فرمایا جس میں علم الکلام کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے ۔