ولادت : ۴؍ربیع الآخر ۱۲۶۴ھ وصال: غرہ جمادی الاخری ۱۳۳۶ھ
شیخ الاسلام حضرت حافظ محمد انواراللہ فاروقی رحمہ اللہ الباری اسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ کے بانی ہیں۔ آپ کا اصل نام محمد انوار اللہ ہے اور نظام دکن کی جانب سے ’’فضیلت جنگ اور خان بہادر‘‘ کا لقب عطا کیا گیا۔ شیخ الاسلام بانیٔ جامعہ نظامیہ ۴؍ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ کو بمقام ناندیڑ پیدا ہوئے۔ آپ کی والدۂ محترمہ علیھاالرحمہ کا بیان ہے کہ حمل کے دوران انہوں نے حضور اکرم ﷺ کی خواب میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے زیارت کی۔
حضرت شیخ الاسلام، خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق ؓکی نسل سے ہیں۔ جب آپ سات سال کے ہوئے تو آپ کے والد نے آپ کو حفظ قرآن کے لئے حافظ امجد علی صاحب (نابینا) کے سپرد کر دیا۔ کمسنی یعنی ۱۰ سال کی عمر میں شیخ الاسلام نے حفظ قرآن مکمل کر لیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی۔ آپ نے فقہ اور منطق مولانا عبدالحلیم فرنگی محلی اور مولانا عبد الحی فرنگی محلی سے پڑھی۔
شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی ؒنے تین مرتبہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مقدس شہروں کا سفر اختیار فرمایا۔ پہلا سفر ۱۲۹۴ھ، دوسراسفر ۱۳۰۱ھ اور تیسرا سفر ۱۳۰۵ھ میں کیا۔ تیسری مرتبہ شیخ الاسلام نے وہاں تین سال تک قیام فرمایا۔ اس دوران میں ضروریات زندگی کی تکمیل کے علاوہ وہ اپنا تمام وقت عبادت یا کتب خانوں میں کتابوں کے مطالعہ میں گزارتے۔ ان کی کتاب ’’انوار احمدی‘‘شیخ الاسلام اس زمانہ ہی کی تصنیف ہے۔ شیخ الاسلام نے کئی اہم اسلامی کتب کی نقول اپنے ذاتی خرچ پر تیار کروائی۔ ان میں سے اہم ترین کنز العمال (ذخیرۂ حدیث)، جامع مسند شیخ الاسلام اعظم، سنن بیہقی ہیں اور ان کے علاوہ دیگر کتب بھی ہیں۔ اس سفر میں آپ کی بہن اور بیٹا وفات پا گئے۔ مدینہ منورہ کے علماء اور صوفیاء خصوصاً حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی قبلہ رحمہ اللہ الباری کے اصرار پر شیخ الاسلام نے حیدرآباد واپس آنے کا ارادہ کرلیا۔ مقدس دونوں شہروں سے واپسی کے بعد شیخ الاسلام کی تقرری ساتویں نظام نواب میر عثمان علی خان کے اطالیق کے طور پر ہو گئی۔ ساتویں نظام کی تاج پوشی کے بعد شیخ الاسلام نے اپنا تمام وقت علوم اسلامیہ کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔ تاہم نظام نے ان کو دکن کے صدر الصدور کے عہدہ کے لئے قائل کر لیا۔ اگرچہ شیخ الاسلام نے اعتراض کیا کہ وہ سرکاری ملازمت میں عمرکی حد (۵۵ سال) سے تجاوز کر چکے ہیں۔ نظام نے انھیں بتایا کہ اس عہدہ کے لئے ان سے زیادہ مناسب کوئی اور شخصیت نہیں ہے۔ بعد میں شیخ الاسلام مذہبی اُمور کے وزیر بنادیئے گئے۔
قیام ازہرِ ہند جامعہ نظامیہ۱۹ ؍ ذوالحجہ ۱۲۹۲ھ کو عمل میں آیا۔ الحمد للہ مذکورہ تاریخ سے لیکر اب تک تعلیمی سفر جاری و ساری ہے۔ ان شاءاللہ آئندہ بھی اسکا سلسلہ جاری رہے گا۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ الباری نے درج ذیل کتب ’’حقیقۃ الفقہ جلد اول و دوم،انوار احمدی، مقاصد الاسلام (گیارہ جلدیں)، افادۃ الافہام اول، دوم، الکلام المرفوع، انوار اللہ الودود فی مسئلۃ وحدت الوجود، انوار الحق، کتاب العقل وغیرہ‘‘ تصنیف کیں۔
وفات: حضرت علامہ مفتی محمد رکن الدین علیہ الرحمہ (مفتی اول جامعہ نظامیہ) نے مطلع الانوار میں تحریر فرمایا ہے کہ شیخ الاسلام کی پیٹھ پر کچھ پھوڑے نکل آئے۔ نظام کے حکم پر ماہر اطباء کو بلایا گیا،دورانِ علاج اطباء نے تصدیق کر دی کہ یہ مرضِ سرطان ہے۔ جراحی کی گئی۔ ایک طویل جراحی کے بعد پھوڑا نکال دیا گیا۔ بعد علاج اطباء نے شیخ الاسلام کو صحت یابی کی اطلاع دی تو شیخ الاسلام نے اطباء کا شکریہ ادا کیا اور بعد مغرب دوبارہ معائنہ کیلئے کہا۔ جب شیخ الاسلام بستر پر لیٹے تو آپ کا چہرہ زرد تھا۔ آپ کی زبان پر کلمۂ طیبہ جاری ہوا اور پھر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ اُدھر جمادی الاولیٰ کے آخری دن کا سورج غروب ہونے کے بعد غرہ جمادی الثانی ۱۳۳۶ھ کا چاند طلوع ہوا تو اِدھر حضرت شیخ الاسلام جیسا علمی چاند غروب ہوگیا۔ (اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ) مکہ مسجد میں بعد نماز جمعہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ اور شیخ الاسلام کو جامعہ نظامیہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ ہر سال کی طرح امسال بھی ۲۹؍جمادی الاولیٰ کو حضرت شیخ الاسلام کاایکسو گیارہ سالہ عرس منایا جائے گا۔
[email protected]