حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ حیات و خدمات

   

ڈاکٹر سید حسام الدین

پانچویں صدی ہجری میں عالم اسلام میں سیاسی فکر ، مذہبی ضعف اور بداعتقادی عروج پر پہنچ گئی تو ان حالات میں دین مبینہ کے استحکام اور ترویح کیلئے شہر بغداد میں علوم دینی کا آفتاب طلوع ہوا ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف حضرت غوث الاعظم دستگیر ۴۸۸؁ ھ میں بغداد پہنچے اُس وقت آپ کی عمر ۱۸سال تھی اس وقت بغداد فتنوں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ ایک طرف شیعت ، اعتزال ، فتنہ خلق قرآن اور باطنیت کی تحریکیں عروج پر تھیں۔ علماء اور صوفی راہ ِ حق سے بھٹکے ہوئے تھے ۔ حرام خوری ، بدکاری عام ہوگئی تھی چنانچہ چوتھی صدی کے آخر اور پانچویں صدی کے دوران ان فتنوں کی بیخ کنی کیلئے حضرت شیخ ؒ کا ظہور ہوا ۔ حضور سیدنا غوث الاعظم دستگیر ؒ جن کا لقب محی الدین ہے یعنی دین کو زندہ کرنے والا کی ولادت باسعادت ۲۹ ؍ شعبان المعظم ۴۷۰؁ ھ میں بمقام جیلاں ہوئی ۔ آپ کے والد حضرت سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوستؒ اور والدہ ماجدہ حضرت اُم الخیر فاطمہؒ تھیں۔آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے حضرت حسنؓ اور والدہ کی طرف سے حضرت حسینؓ سے جاملتا ہے ۔ اس طرح آپ ؒ حسنی اور حسینی سید تھے گویا سلسلہ سادات میں نجیب الطرفین تھے ۔
پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ مادر زاد ولی تھے ۔ جب آپ پیدا ہوئے رمضان المبارک کا مہینہ آیا ۔ مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہیں آیا ۔ مسلمانانِ شہر پریشان تھے کہ رویت ہلال کی تصدیق کے بغیر روزوں کا کس طرح شمار کیا جائے ۔ دفع اُلجھن کے لئے لوگ آپ کے والد ابوصالح موسیٰ جنگیؒ سے رجوع ہوئے ۔ حضرت جنگیؒ حضرت غوث پاکؒ کی والدہ سے اس خصوص میں مشورہ کیا ۔آپ کی والدہ نے فرمایا کہ آج میرے بچے نے صبح سے دودھ نہیں پایا ہے اس لئے میں یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ آج رمضان کی پہلی تاریخ ہے ۔ حضرت غوث پاکؒ رمضان تمام دن میں دودھ نہیں پیتے صرف افطار کے وقت دودھ نوش فرماتے ۔ لوگوں نے حضرت غوث الاعظمؒ کی والدہ کی تصدیق کے بعد روزہ رکھ لیا۔
حضرت غوث الاعظم دستگیرؒ نے رمضان تمام دن میں دودھ نہیں پیا اور یکم شوال سے دودھ پینا شروع کردیا ۔ حضرت پیرانِ پیرؒ صاحب تالیف اور تقریر تھے ، آپ کی تصانیت میں غنیۃ الطالبین ، فتوح الغیب ، فتح ربانی ، جلاء الخاطر مشہور ہیں اس کے علاوہ آپ کے مکتوبات اور ملفوظات کی بھاری تعداد بھی ہے۔ حضرت غوث پاکؒ کی تعلیم و تربیت میں والدہ ماجدہ کا بڑا حصہ رہا ہے اس کے علاوہ اُن کے پیر و مرشد حضرت ابوسعید الخزومی بھی اس خصوص میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ اسلامی علوم کی اشاعت میں خطبات حضرت غوث الاعظمؒ کو کافی اہمیت حاصل ہے ۔ آپ کے مواعظ اور خطبات میں سچائی کا وصف اور صداقت کا نور ہے ۔
آپ نے اپنے خطبات کا سلسلہ ۵۴۵؁ ۔۵۴۶؁ھ کے دوران شروع کیا۔ حضرت شیخ ؒ کے خطبات کی تعداد ساٹھ (۶۰) سے زیادہ ہے ۔ آپ کے خطبات میں امیر ، غریب ، علماء ، امراء اور حاکم وقت شریک ہوتے تھے ۔ حضرت غوث الاعظم دستگیرؒ راست گو تھے ۔ حسن و صداقت کے اظہار میں کسی کی بھی پرواہ نہ کرتے ۔ اپنے مواعظ میں حاکم وقت کی بھی سرزنش کرتے۔ آپ کی کوئی بھی مجلس توبہ کرنے والوں سے خالی نہیں ہوتی تھی ۔ کوئی یہودیت سے توبہ کرکے داخل اسلام ہوتا تو کوئی عیسائیت سے کنارہ کش ہوکر آپ کے ہاتھوں بیعت کرنا ، گناہگار گناہوں سے تائب ہوکر مومنانہ زندگی بسر کرنے کا عہد کرتا ۔ بدکار بدکاری سے توبہ کرکے پرہیزگاری کی طرف متوجہ ہوتے ۔
آپ کے خطبات میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی تھی ۔ آپ کی خطبات کا سامعین پر عجیب اثرات ہوتے ۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ، سینوں سے ہوک اُٹھتی اور ان میں سے کئی بے ہوش ہوجاتے اور اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کردیتے ۔ آپ کے خطبات اور مجالس مواعظہ میں اس لئے تاثیر ہوتی تھی آپ کے قول و فعل میں تضاد نہ تھا ۔ علم و عمل میں یکسانیت تھی ۔
آپ حضرت غوثِ پاکؒ اپنے خطبات میں نفس کشی اور ضبط نفس ، عمل پر معاوضہ کا طالب نہ ہونے ۔ عمل کی جزاء اﷲ تعالیٰ سے مانگے ، روحانی ارتقاء کی منزلیں بتدریج عامل ہوتی ہیں۔ درجہ کامل پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ طالب کو حتی الامکاں اجتماعی زندگی سے الگ تھلگ رہے ۔ اپنی حاجت مالک سے کرنی چاہئے ۔ اپنی حاجت مخلوق کے آگے بیان نہ کرنا چاہئے ۔ تقدیر اچھی ہو یا بری اُس کے آگے سرتسلیم خم کرنا چاہئے ۔ طالب روحانیت کی رزق کیلئے زیادہ فکر و تردد نہ کرنا چاہئے ۔ رزاقیت غیبی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔
احیاء دین کے سلسلہ میں آپ کی خدمات رائیگاں نہیں گئیں، بے شمار غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا اور ہزاروں مسلمانوں نے گناہوں سے توبہ کی اور عاصیانہ زندگی ترک کرکے مسلمانہ زندگی اختیار کی ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ۵۱۱؁ ھ سے ۵۶۱؁ ھ تک مسلسل ۵۰ سال وعظ فرماتے رہے اور ۱۱؍ ربیع الثانی ۵۶۱؁ ھ شب سہ شنبہ بعمر ۹۱ سال اس دنیا سے پردہ فرمایا اور اپنے ہی مدرسہ واقع باب الازج بغداد شریف میں دفن ہوئے ۔ آپ کے پسماندگان میں چار ازواج شریفہ تھیں جن سے ۲۰ صاحبزادے اور ۲۹صاحبزادیاں تھیں۔ آپ کے بڑے صاحبزادے سیدنا سیف الدین عبدالوھاب آپ کے جانشین ہوئے ۔