حضرت علیؓ اُمت اسلامیہ کیلئے مثالی شخصیت

   

پروفیسراخترالواسع
آج جب محسن انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے قافلہ ٔ حق کے بڑے جانثار سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کوچودہ سوسال مکمل ہونے پر ’یوم علی‘ کی تقریبات پورے عالم اسلام میں منعقدہورہی ہیں توقلب وذہن پراسلامی تاریخ کے سارے اوراق یکے بعددیگرے پلٹ رہے ہیں،جہاںباطل طاقتوں کی خونچکاں تاریخ بھی ہے اور عزیمت وسعادت کے بلندمعیارپرفائزاسلام پر مرمٹنے والوں کی ادائے جانثاری بھی، اس پوری تاریخ میں ہمیں امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے روشن کردار کی اتنی چکاچوند ملتی ہے جو پوری ملت اسلامیہ کے لیے حرزجاں ہے اور کائنات کی رہنمائی کابہترین نسخہ کیمیا بھی۔

گزشتہ دنوں نئی دہلی کے انڈیااسلامک کلچرسینٹر میںیوم علی تقریب میں شرکت کے دوران یہ بات میرے دل ودماغ میں گونجتی رہی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کادورہویا ان کی اسلامی جدوجہد کاعہد،اس پر سنجیدگی سے غورکیاجائے تواسلامی پرچم لیے بڑھتے ہوئے اس طوفان کے سامنے جو مسائل درپیش تھے کم وبیش آج کے حالات بھی کچھ اسی طرح کے ہیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ چودہ سوسال قبل جن طاغوتی قوتوں سے نبردآزماتھے وہی کیفیت آج پوری امت پر طاری ہے ۔ جس طرح حضرت علی رضی اللہ کے سامنے دشمنان اسلام بھی کھڑے تھے اورمنافقین کی ریشہ دوانیاں بھی جاری تھیں اسی طرح بعض سماجی گروہ اسلام کواپنی راہ کی رکاوٹ اور مسلمانوں کو اپنادشمن تصورکررہی ہیں،اور منافقین کی تعدادہے کہ ہرروزاس میں اضافہ ہورہاہے۔ایسے حالات میں عالم اسلام کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رول ماڈل (مثالی شخصیت ) تصورکرتے ہوئے ان کے طرزعمل کو اساسی اصول قراردیناہوگا تبھی ہم دنیامیں امن واتحاد کا داعی اور مشن محمدی کاعلمبرداربن سکتے ہیں۔

آج مسلمانوں کو اسلامی اخوت، اجتماعی جذبہ اورراہ حق میں مرمٹنے کے اسی چارٹر پر عمل پیراہونے کی ضرورت ہے جس کو آج سے چودہ سوسال قبل رسول اللہ کے چاہنے والوں نے اپنایاتھا۔ انہیں چاہنے والوں میں حضرت علی رضی اللہ بھی تھے جنہوں نے سب سے پہلے نبی اکرم کو برحق جاناتھا ،یہ حضرت علی ہی تھے جنہوں نے بچپن اسلام کے سایے میں گزارا،جوانی اسلام کی سربلندی کی نذرکردی اور بڑھاپابھی اسلام کی ہی خدمت کرتے کرتے گزرا،یہاں تک کہ اسی حالت میں جام شہادت بھی نوش فرمایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی داعیان اسلام کے لیے کل بھی نمونہ تھی اورآج توایسا محسوس ہوتاہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کرداروعمل کو نمونہ بنانے کی زیادہ ضرورت آن پڑی ہے کیونکہ جن حالات سے حضرت علیؓ کاسابقہ رہا امت آج اسی نوعیت کے حالات سے گزررہی ہے۔حضرت علیؓ علم وتفقہ کے میدان میں بھی یکتائے روزگار تھے اورمیدان کارزارمیں بھی ان کاہم پلہ نظر نہیں آتا۔وہ ایسے صحابی تھے جن پر رسول اکرم ﷺکو بھی ناز تھا اوران کے اصحاب کو بھی۔ اس بارے میں خلیفۂ دوئم حضرت عمر ابن خطاب کا یہ ارشاد ہمار لیے سند کی حیثیت رکھتا ہے کہ ’’اگر علی نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہو جاتے‘‘۔ حضرت علیؓ کے کرداروعمل اوران کے ملفوظات کے مطالعہ سے انداز ہ ہوتاہے کہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کے ہررخ سے ایک جہا ں متاثرتھا اور ہرعہدمیں ان کی زندگی کے ہرہر پہلوسے فیضیابی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں اسلام اورمسلمانوں کو جن عناصر کی ریشہ دوانیو ںسے سابقہ تھا ہم انہیں خوارج کہتے ہیں اورآج اسی نوعیت کی ناروا تحریک سے وابستہ افرادکو ہم داعش کے پیروکارکہہ سکتے ہیں۔یہودیو ں کی دشمنی حضرت علیؓ کے زمانے میں بھی تھی اورآج بھی ہے ، بلکہ آج تواس میں مزیدشدت آگئی ہے کہ وہ نہ مسلمانوں کو پسند کرتے ہیں اور نہ مسلمان انہیں۔ اوائل اسلام میں ابوجہل اورعبداللہ ابن ابی جیسے لوگ تھے اورآج ان جیسے سیکڑوں افراددنیامیں ہیں جن کی زندگی کامشن ہی اسلام اوراس کے پیروکاروں کی دنیاتنگ کرناہے۔پہلے مسلمانوں کے خلاف افرادکام کرتے تھے اوراب بڑے بڑے ادارے اس کے لیے وقف ہیں بلکہ بعض حکومتیں بھی اس میں ملوث ہیں۔ایسے حالات میں ہمیں اپنے اسلاف اورسرفروشان اسلام کی پیروی اوران کے کرداروعمل سے فیضیابی کس قدرضروری ہے اس کاانداز ہ لگایاجاسکتاہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی اسلامی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جس کی ضرورت ہمیں ہر عہداورہرلمحہ ہے۔ان کی پاکبازی،عدل وانصاف، جودوسخا، حلم وبردباری اورشجاعت وبہادری کو ہم کیسے بھلاسکتے ہیں۔ان کی بزرگی ،قیادت اورشجاعت نے توبہتے ہوئے دھاروں کارخ موڑ دیا جن سے آج بھی ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے۔ حضرت علیؓ کی شخصیت کا یہ پہلو بھی ناقابلِ فراموش ہے کہ وہ مولودِ کعبہ بھی ہیں اور ان کی شہادت بھی کوفہ شہر میں خدا کے گھر میں ہوئی۔

عجیب بات ہے کہ ہم نے اسلام کے نامور اور اہم ترین بزرگوں کی تاریخ کو محض باعث افتخاربنایاان کی تعلیمات پر عمل کرنے سے گریزاں رہے۔ہمیں حضرت علیؓ جیسے عظیم المرتبت صحابی اور بچپن سے رسول کے تربیت یافتہ کی زندگی سے فیض حاصل کرتے ہوئے ضابطہ حیات طے کرناچاہیے۔ ہمیں اپنے رسول،ان کے صحابہ کرام،ائمہ اوراسلاف کو کبھی نہیں بھولناچاہیے ،ان کی زندگی کے روشن نقوش کامطالعہ ،ان کی یادوںکو سینے سے لگانے اوران پر عمل کرنے سے ہم آج بھی دنیامیں سرخروہوسکتے ہیں اوراللہ رب العزت کے نزدیک محبوبیت حاصل کرسکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں دارالحکومت دہلی میںحضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چودہ سوبرس مکمل ہونے پر مذکورہ بالا بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس نے مجھ جیسے بہت سے لوگوں کے دلوں میں اصحاب رسول کی محبت کو دوبالاکیاہے ،ایسی تقریبات مسلمانوں کو ہرسطح پر منعقد کرنی چاہئیں تاکہ اپنے اسلاف کے نقوش زندگی سے فیض حاصل کرسکیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کو چودہ سوسال ہونے کے ساتھ ساتھ یہ خلافت راشدہ کو بھی یادکرنے کاموقع ہے۔حضرت علی حکومت الہٰی کے قیام کیلئے یادکیے جاتے رہیں گے اورعرب وعجم کے بھیدبھائواور شیعہ سنّی کے درمیان تفریق کومٹانے اورعدل وانصاف کیلئے یادکیے جاتے رہیں گے۔ ان کی زندگی اسلام اور عالم انسانیت کیلئے تھی اور اسلام کیلئے ہی انہوںنے جام شہادت نوش کیا۔انہو ںنے قیادت بھی اسلام کیلئے کی اور اسلام کیلئے ہی تمام باطل طاقتوں سے ٹکراتے رہے۔دراصل وہ حکومت الٰہیہ اور ظالم حکمرانو ںکے درمیا ن حدفاصل تھے۔وہ شوکت اسلامی کے نشان تھے جن کی ہیبت اسلام دشمن طاقتوں پر طاری رہتی تھی۔
علم وبصیرت سے مالامال حضرت علی رضی اللہ عنہ کابچپن بچوںکے لیے روشنی عطاکرتا ہے توان کی جوانی جوانوںکو خیرکے لیے مہمیز کرتی ہے اوران کا بڑھاپا عمل پیہم عزمصمم کی ترغیب دیتاہے۔ان کی قیادت اورجہودات ہمیں متحرک وفعال بناتی ہے اور ان کاہرہرعمل اللہ کے قریب لے جاتاہے۔ اس لیے ہمیں اسلام کی اس برگزیدہ شخصیت کے کرداروعمل کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس طرح اتحادواتفاق کی روشنی دکھائی اس پر عمل کی کرنے کی آج زیادہ ضرورت ہے تاکہ ہم ایک امت اورایک طاقت ہونے کامظاہرہ کرسکیں۔ حضرت علیؓ کی ولادت، سیادت، قیادت اور شہادت سب کچھ اسلام اورپیغمبر اسلام کے لیے تھی اور ان کی پیروی کرکے ہی ہم اپنے لیے دنیا اور آخرت میں عزت اور نجات دونوں کا سامان کرسکتے ہیں۔
(مضون نگار مولاناآزاد یونیورسٹی، جودھپور کے صدر اور
جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)

آج پوری دنیامیں مسلمان پریشان ہیں ،مسائل ومشکلات ان کاپیچھاکررہی ہیں،اس کی دوہی وجہ ہے کہ ہم نے دین کی رسی کو مضبوطی سے نہیں پکڑا اور سب سے بڑی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ہم نے دین کو مسلکوں کا تابع بنا دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے نبی اوران کے اصحابؓ کے طریق زندگی کو اپنی زندگی کااصول نہیں بنایا۔ہمیں یادرکھناچاہیے کہ جوقوم اپنے اسلاف کے عمل سے ہٹ جاتی ہے وہ بے جڑہوجاتی ہے اورپھر اس کی بے وقعتی عام ہوجاتی ہے۔