مقبرہ حضرت
عمر بن عبدالعزیز (شام)
سلیمان بن عبدالملک جب مرض الموت میں مبتلا ہوا تو اس نے رجاء بن حیاۃ سے دریافت کیا کہ میرے بعد خلیفہ کون ہوگا کیا میں اپنے بیٹے داؤد کو نامزد کردوں؟رجاء بن حیاۃ نے جواب دیا آپ کا بیٹا اس وقت یہاں موجود نہیں ہے اور کیا معلوم کہ وہ اس وقت زندہ بھی ہے یا نہیں۔ سلیمان نے کہا تو میں پھر اپنے دوسرے بیٹے ایوب کو نامزد کردیتا ہوں۔ اس پر رجاء بن حیاۃ نے جواب دیا وہ ابھی نابالغ ہے ۔ اس کے جواب میں سلیمان بن عبدالملک نے کہا تو پھر تمہارے نزدیک کون سا شخص زیادہ موزوں ہے ۔ رجاء نے جواب دیا کہ عمر بن عبدالعزیز سے زیادہ اور کوئی شخص اس کے لئے مناسب اور موزوں نہیں ہے ۔ آپ اُنھیں خلیفہ نامزد کردیں۔ سلیمان نے جواب دیا کہ ’’میرے اس اقدام پر میرے بھائی رضامند نہ ہونگے ‘‘۔ رجاء بن حیاۃ نے جواب دیا کہ اس کی ترکیب یہ ہے کہ آپ عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبدالملک کو ولیعہد نامزد کردیں اور آپ یہ وصیت نامہ لکھ کر اس پر مہر کردیجئے کہ عمر بن عبدالعزیز کے بعد یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوگا ۔ پھر آپ لوگوں کو بلاکر حکم دیجئے کہ تم اس شخص کی بیعت کرو جس کا نام اس وصیت نامہ میں درج ہے ۔ سلیمان بن عبدالملک کی حیات میں مہربند وصیت پر بیعت لی گئی ۔ بعد وفات دوبارہ بیعت کے بعد رجاء نے سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے اعلان کے بعد وصیت نامہ کھولکر لوگوں کو سنایا جس میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ نامزد کیا گیا تھا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے خطبۂ خلافت میں فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے : ’’لوگو ! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی خواہش کے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داریوں میں مبتلا کردیا گیا اس کے لئے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے میں خود اُتار دیتا ہوں ۔ تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کرلو‘‘۔اس خطبہ کو سنکر لوگوں نے بلند آواز میں کہاکہ ’’ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے اور ہم سب آپ سے راضی ہیں، آپ خدا کا نام لیکر کام شروع کردیجئے ‘‘۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی ملک میں اصلاحات کی طرف توجہہ کی ۔ آپ نے سب سے پہلے صوبوں کے گورنروں کے نام ایک فرمان جاری کیا جس میں آپ نے اپنے پروگرام اور عزائم سے آگاہ کیا ۔ آپ کے فرمان میںیہ شامل تھا کہ ’’اﷲ نے جو ذمہ داری مجھ پر عائد کی ہے وہ بہت سخت ہے اگر بیویاں جمع کرنا اور دولت سمیٹنا مجھے منظور ہوتا تو مجھ سے زیادہ کسی کے لئے اس کے وسائل مہیا نہ تھے ۔ لیکن میرا حال یہ ہے کہ میں خلافت کی ذمہ داری کے سلسلہ میں سخت محاسبہ سے لرزاں ہوں ۔ البتہ اگر اﷲ نے رحم و درگزر سے کام لیا تو اُمید ہے کہ چھٹکارا ہوجائے ‘‘۔
نیز عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے ساتھ ہی انھوں نے ملک کی چند ایسی ممتاز اور نمایاں ہستیوں کاانتخاب کیا ، جن کی سیرت ، کردار کی استواری ، علم و فہم کی گہرائی پر اس عہد کی عام مخلوق کامل اعتماد رکھتی تھی ۔ یہ دس آدمیوں کی شوریٰ تھی ۔ اراکین شوریٰ کو سامنے بٹھاکر حکمراں کی طرف سے یہ عہد نامہ پیش ہوا کہ ’’میں آپ لوگوں میں سے ہر ایک کی یا جو مجلس شوریٰ میں حاضر رہیں گے اُن کی رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اور حکومت کے پورے دور میں اس عہدنامہ کی پابندی کی گئی‘‘ ۔
شاہی خزانے کے تین شعبے کردیئے گئے تھے ، ایک شعبہ میں خراج اور مالگزاری کی عام آمدنی جمع ہوتی تھی، دوسرے میں فوجی فتوحات کی آمدنی کا پانچواں حصہ جسے خمس کہتے تھے ، جمع ہوتا تھا اورتیسرا مستقل شعبہ ملک کے حاجتمندوں، غریبوں،یتیموں،تاوان زدہ افراد، مسافروں وغیرہ کیلئے مختص تھا ، صدقات و زکوٰۃ کی آمدنی اسی شعبہ میں جمع ہوتی تھی ۔ ایسا نظم قائم کردیا گیا کہ گزشتہ سال جو خود خیرات کا مستحق تھا ، اس کے پاس اتنا سرمایہ اکٹھا ہوگیا کہ خود صدقہ ادا کررہا ہے ۔ تجارت میں ، زراعت میں یا کسی اور کاروبار میں جو نقصان اُٹھاتے تھے یا مقروض ہوجاتے تھے ، بیان کیا گیا ہے کہ ملک کے دوردراز گوشوں سے اس قسم کے تاوان زدہ افراد آتے ، ان کے واقعہ کی تحقیق کی جاتی جب ثابت ہوجاتا کہ واقعی تاوان کے وہ شکار ہوئے ہیں تو صدقات کے شعبہ سے اُس کی تلافی کی جاتی تھی ۔ چار چار سو طلائی اشرفیاں بسا اوقات ایک ایک آدمی کو اس سلسلہ میں ملتی تھیں، نہ صرف مرکزی خزانے سے یہ امداد لوگوں کو ملتی تھی بلکہ ہر ہر علاقہ کے مقامی خزانوں میں یہ سلسلہ جاری رہتا تھا ۔ عام فرمان تمام ملک میں گشت کرادیا گیا تھا ، جس شخص پر ایسا کوئی بار ہو جس کے ادا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو خزانے سے رقم اس کی طرف سے ادا کردی جائے۔ یہی نہیں بلکہ اسی فرمان میں یہاں تک لکھا پایا جاتا ہے کہ جو شادی کرے اور مہر ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ، اس کو بھی مہر ادا کرنے کیلئے خزانے سے رقم عطا کی جائے ۔ سرکاری خزانے کی ان مدوں سے استفادہ کے لئے صرف یہ شرط تھی کہ وہ ملک کا باشندہ اور قانونی رعیت ہو ، کسی نسل سے ہو ، کسی فرقہ سے ہو ، کسی قسم کا مذہب رکھتا ہو ، ہر ایک کے لئے دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ لکھا ہے کہ ایک ایک بطریق (عیسائی پادری ) کو ہزار ہزار طلائی اشرفیاں دی گئیں۔
(ماخوذ از : انسانی تاریخ کا ایک مثالی حکمراں از مولانا سید مناظر احسن گیلانی )
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جس طرح حکومت کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی کی اور اس کے ہر شعبہ میں اصلاحات کیں ، اسی طرح دین اسلام کی نشر و اشاعت ، احیاء سنت اور شرک و بدعت کی تردید میں بھی نمایاں کارنامے سر انجام دیئے ۔دین اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی تعلیم کو عام کرنے کیلئے آپ نے کئی غیرمسلم ممالک کے سرابراہان کو اسلام کی دعوت دی ۔ علامہ بلاذری فتوح البلدان میں لکھتے ہیں : ’’اُنھوں نے ماوراء النھر کے بادشاہوں کو دعوت اسلام دی اور ان میں سے بعض اسلام لائے ۔ علامہ بلاذری نے سندھ کے سلاطین کے نام حضرت عمر بن عبدالعزیز کی دعوتِ اسلام کا ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں : انھوں نے بادشاہوں کو اسلام اور اطاعت کی طرف اس شرط پر دعوت دی کہ ان کی بادشاہی میں کوئی خلل نہ آئے گا اور جو حقوق مسلمانوں کے ہیں ان کو ملیں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمان پر عائد ہوتی ہیں وہ ان پر عائد ہونگی ۔ چونکہ تمام بادشاہوں کو ان کے کیریکٹر کا حال معلوم ہوچکا تھا اس لئے حبشہ اور دوسرے بادشاہ اسلام لائے ۔ (فتوح البلدان ص ۲۴۶) اسماعیل بن عبداﷲ بن ابی المھاجر مغرب کے عامل تھے جب اُنھوں نے حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ کے دعوت نامہ کو پڑھکر لوگوں کو سنایا تو تمام بربری قوم نے اسلام قبول کرلیا۔ اور اسلام تمام مغرب کے اُفق پر چھاگیا ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دورِ حکومت دنیا کے بادشاہوں سے مختلف تھا اس لئے ان کے مختصر دور حکومت میں رعایا بہت خوشحال تھی۔ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق نبی اکرم ﷺ کی پیشن گوئی کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ایک دن اﷲ تعالیٰ اسلام کو تکمیل کے درجہ تک پہنچائیگا اور ایک عورت حیرۃ سے آکر کعبہ کا طواف کریگی اور اس کو اﷲ کے علاوہ کسی کاخوف نہ ہوگا ، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد خلافت میں ظاہر ہوئی اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کل دو سال پانچ مہینے خلافت کرکے ۱۰۱ھ میں دنیا سے رخصت ہوئے ۔ اس بات کے آثار و قرائن موجود ہیں کہ ان کے خاندان نے ان کو زہر دیا۔