شیخ احمد حسین
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت کے مطابق ہم نے فاطمہؓ کی شادی سے بہتر کوئی شادی نہیں دیکھیں۔ حضور سرور کائنات ﷺنے اپنی بیٹی کو جو جہیز دیا وہ ایک قمیص، ایک چادر اوڑھنے کے لئے کالے رنگ کا نرم روؤں کا کمبل، کھجو رکے پتوں سے بنا بستر، موٹے ٹاٹ کے دو فرش، چمڑے کے چار تکئے، آٹا پیسنے کی چکی، تانبے کا بڑا برتن، کپڑے دھونے کے لئے ایک مشکیزہ، مٹی کی صراحی مٹی کے دو آب خورے، زمین پر بچھانے کا چمڑا، ایک سفید چادر اور ایک لوٹا۔ سبحان اللہ۔آج ایک مسلمان کی بیٹی کی شادی فضول رسومات اور بے جا اخراجات کے باعث بوجھ بن گئی ہے ہمارے لئے لازم ہے کہ سیدہؓ کی زندگی کو لائحہ عمل بنایا جائے۔ ان کی شادی ہر لحاظ سے بہترین اور مثالی ہے اور اعتدال و میانہ روی کی عکاس ہے۔ ازدواجی زندگی میں جب تک گھریلو کام سلیقہ سے انجام نہ پائیں گھر کا نظام درست نہیں رہتا حضرت علیؓ نے امور خانہ داری یوں طے کئے کہ باہر کے کام اور جانوروں کو پانی پلانا اپنے ذمہ لیا اور فاطمۃ الزہراءؓ چکی پیسنے اور آٹا گوندھنے اور دیگر گھریلو امور میں اپنی ساس کی مدد کریں گی۔ حضرت فاطمہ ؓکی چادر میں ۱۲ سے زائد پیوند ہوتے تھے۔ جب بچوں کے سونے کا وقت آتا تو قرآن مجید کی تلاوت فرماتی جاتی تھیں۔ چکی پیستی تو بچوں کو گود میں لے لیتی تھیں۔صبح کے وقت آنحضور ﷺمسجد میں تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ کی چکی چلانے کی آواز کانوں میں آتی تھی۔ حضور ﷺبے اختیار ہوکر دعامانگتے تھے کہ اے باری تعالیٰ! فاطمہ کو اس ریاضت اور قناعت کا اجر دے اور حالت فقر میں ثابت قدم رکھنا۔حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہ جب حضور پاک ﷺکے پاس تشریف لاتیں تو حضور ﷺکھڑے ہوجاتے اور ان کی پیشانی چومتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے اور واپسی میں سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لاتے۔
