ڈاکٹر سید حسام الدین
اﷲ سبحانہ تعالیٰ نے نوع انسانی کی رشد و ہدایت اور اُنھیں ہدایت کی طرف رجوع کرنے کیلئے پیغمبروں ، رسولوں اور انبیاء کو مامور کیا ۔ نبیوں کی آمد کا سلسلہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ختم ہوچکا ۔ آپ کے بعد دین متین کی تبلیغ و ترویج کا کام صحابہ کرامؓ کے سپرد کیا گیا ۔ صحابہؓ کے بعد تابعین و تبع تابعین نے اس ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دیا ۔ تبع تابعین کے بعد اولیاء اﷲ نے سرکار دوعالم ﷺ کے مشن کی تکمیل کا کام سر انجام دینے لگے ۔ یہ سلسلہ ان شاء اﷲ تاقیامت جاری و ساری رہے گا ۔
اولیاء اﷲ بلاخوف و خطر رشد و ہدایت کے ذریعہ گم کردہ مخلوق کو خالق سے جوڑنے کے لئے طرح طرح کی خدمات انجام دیئے ۔ اولیاء اﷲ کے بارے میں حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (ترجمہ ) ’’بیشک اﷲ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے ‘‘۔ ( سورہ یونس ۔ آیت ۶۳)
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؓ کی ولادت علاقہ گیلان کے مقام نیف میں یکم رمضان بروز جمعہ ۴۷۰ ھ م ۱۰۷۵ء کو ہوئی ۔ حضرت غوث اعظم دستگیرؓ مادرزاد ولی تھے ۔ چنانچہ آپ کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ حضرت شیخ رمضان شریف کا پورا مہینہ آپ دن کے وقت دودھ نہیں پیتے جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطار کرتے تو آپ دودھ پیتے ۔
حضرت غوث پاکؓ کی والدہ کا نام اُم الخیر فاطمہ ؒ اور اُن کا لقب امتہ الجبار اور والد کا اسم گرامی حضرت ابوصالح موسیٰ جنگی دوست تھا۔ حضرت پیران پیر والد کی نسبت حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی تھے ۔
حضرت غوث اعظم ؓ کا اصل نام حضرت سید عبدالقادر جیلانی اور کنیت ابو محمدؐ اور لقب محی الدیں ہے مگر آپ کو محبوب سبحانی ، غوث الثقلین اور غوث اعظم دستگیرؓ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
حضرت غوث الثقلینؓ کی تعلیم و تربیت میں آپؓ کے نانا جان حضرت سید عبداﷲ صومیؒ کا بڑا حصہ ہے ۔ چونکہ حضرت شیخ کی صغیر سنی میں آپؓ کے والد بزرگوار حضرت شیخ ابو صالح موسیٰ جنگیؒ کا انتقال ہوگیا اس لئے حضرت غوث اعظم ؓ اپنے نانا حضرت سید عبداﷲ صومیؒ کے زیرسایہ پروان چڑھے ۔ حضرت صومیؒ کو کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی چنانچہ آپؒ نے اپنی تمام تر پدرانہ شفقت نواسے کے لئے وقف کردی۔ گویا حضرت غوث الاعظم ؓ کے استاد اور مرشد اول حضرت سید عبداﷲ صومیؒ جیسے جلیل القدر عارف زمانہ تھے۔
نانا کے انتقال کے بعد سرکار غوث اعظمؓ کی تعلیم و تربیت کا سارا بوجھ والدہ محترمہ سیدہ فاطمہ پر آن پڑا ۔ والدہ ماجدہ کی نگرانی میں آپؓ سن رشد کو پہنچے ۔
حضرت شیخ کو بچپن ہی سے کھیل کود سے دلچسپی نہیں تھی ۔ جب کبھی ساتھیوں کے ساتھ کھیلنا چاہتے غیب سے آواز آتی کہ لہو لعب سے باز رہو جسے سن کر آپؓ رُک جاتے تھے ۔ حضرت کو بچپن ہی میں اپنی ولایت کا علم ہوگیا تھا ۔ جب آپؓ مکتب میں درس حاصل کرتے فرشتہ آپؓ کی نگرانی کرتا ۔ (بہجت الاسرار )
سچائی اور صداقت کا درس اول آپؓ کو والدہ ماجدہ کی سرپرستی میں حاصل ہوا چنانچہ جب ڈاکوؤں کا ایک گروہ آپؓ کو اپنے نرغہ میں لے لیا آپؓ نے بلا خوف اپنی والدہ کی جانب سے دیئے گئے چالیس دینار کا اعلان کیا تو ڈاکوؤں کا سردار جس کا نام احمد بدوی تھا حیرت زدہ ہوگیا ۔ جب ڈاکوؤں کو سیدنا غوث اعظمؓ کی سچائی کا حال معلوم ہوا وہ حضرت کے دستِ مبارک پر بیعت کرکے گناہوں سے تائب ہوگئے۔ (عالم فقری ۔ سیرت غوث اعظم ۔ ص ۳۳)
حضرت محبوب سبحانی حضرت غوث اعظم دستگیرؓ تزکیہ نفس ، علوم باطن ریاضت و مجاہدہ کے لئے اپنی جوانی وقف کردی ۔ اﷲ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے لئے تقریباً ۲۵ سال تک جنگلوں اور ویرانوں میں پھرتے رہے ۔ آپؓ نے کثرت عبادت و ریاضت سے فنا فی الرسول اور فنا فی اﷲ کی منازل طے کیں ۔
حضرت غوث پاکؓ نے اپنے وقت کے نامور علماء اور صوفیوں سے علوم ظاہری اور باطنی پر عبور حاصل کیا ۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو علوم باطنی کا بیشتر حصہ شیخ حماد بن مسلم الدباسؒ سے ملا ۔
حضرت غوث پاکؓ منشائے الٰہی کے مطابق اپنے وقت کے ولی کامل حضرت ابوسعید مبارک مخزومیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کرکے ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے ۔ حضرت شیخ ابوسعید مبارک ؒکو اپنے اس عظیم المرتبت مرید پر بے حد ناز تھا ۔
حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی غوث اعظم دستگیرؓ کو اقلیم ولایت اس طرح عطا ہوئی کہ ایک دفعہ آپ منبر پر جلوہ افروز تھے۔ دوران خطابت آپؓ پر کشف کی کیفیت طاری ہوگئی اور آپؓ بحکم الٰہی یہ ارشاد فرمایا :’’میرا یہ قدم ہر ولی اﷲ کی گردن پر ہے ‘‘ ۔ آپؓ کا یہ ارشاد سن کر تمام اولیاء عالم نے اپنی گردنیں خم کردی ۔ اس لئے حضرت پیرانِ پیرؓ کو امام الاولیاء تسلیم کیا جاتا ہے ۔
عقائد کے لحاظ سے حضرت غوث اعظمؓ امام شافعی اور امام حنبل کی پیروی کرتے اور ان ہی دو بزرگوں کے ارشادات کے مطابق فتوے دیتے تھے ۔ جس وقت آپؓ اپنی تعلیمات اور مواعظ کا آغاز کیا یہ عجیب کشمکش کا دور تھا ۔ فرقہ معتزلہ کے علاوہ ظاہر اور باطن پرستوں کا دور تھا ۔ اس کشمکش کے دور میں مسلمانوں کے عقائد کی درستگی کے لئے رشد و ہدایت کی شمع روشن کی ۔ اپنے مواعظ کے ذریعہ عقائد باطلہ کی بیخ کنی کی ۔
حضرت شیخ نے اپنے خطبات میں نفس کشی ، انا Ego کی مخالفت، تقدیر چاہے اچھی ہو یا بری اس پر قانع ہونا چاہئے ، روحانیت کے فروغ کے لئے رزق کے لئے زیادہ فکر و تردد سے احتراز کی تعلیم دیا کرتے تھے ۔ ( خطباتِ غوث اعظمؓ )
آپؓ کی وعظ کی مجلسوں میں امیر ، غریب ، شاہ و گدا ، اجنہ سب شریک ہوتے ۔ آپؓ کی مجلسوں میں شرکاء کی تعداد ۷۰ ہزار سے تجاوز کرجاتی تھی ۔ آپؓ کی آواز سب کو سنائی دیتی تھی ۔ آپؓ کے واعظ کی اثرانگیزی اس قدر ہوتی کہ لوگ بیخود ہوجاتے اور اکثر تو جان بحق بھی ہوجاتے ۔ آپؓ ۴۰ سال تک واعظ بیان کرتے ۔
حضرت شیخ محی الدین غوث اعظم دستگیرؓ کثیرالتصانیف تھے ۔ آپؓ کی مشہور کتابوں میں غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب اور فتح ربانی شامل ہیں اس کے علاوہ جذب کے عالم میں لکھا قصیدہ غوثیہ بھی قابل ذکر ہے ۔ آپؓ کے فیوض اور کرامات کئی ہیں۔ جن میں مشہور ہے کہ ایک چور آپؓ کے دولت خانہ پر چوری کی غرض سے آیا ۔ حضور کی نگاہ اس پر پڑی اور آپؓ نے اسے ابدال کے درجہ پر فائز کردیا ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کثیرالاولاد تھے چونکہ آپؓ کی ۴ بیویاں تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ اولاد نرینہ میں آپؓ کے بیس (۲۰) صاحبزادے اور انتیس (۲۹) صاحبزادیاں تھیں۔
احیاء دین ہی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی زندگی کا اصل کارنامہ ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دین کے احیاء و استحکام کے لئے جدوجہد کریں یہی سرکار غوث اعظمؓ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے ۔