حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
محدث دکن ابو الحسنات حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۲۹۲ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جد اعلیٰ مکہ مکرمہ سے عادل شاہی دَور حکومت میں سرزمین دکن آئے اور فرمان شاہی کے مطابق نلدرگ (مہاراشٹرا) میں فروکش ہوکر اُمور دینیہ اسلامیہ کی سرپرستی فرمائی۔ حضرت محدث دکن کے والد بزرگوار حضرت پیر سید مظفر حسین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے حکومت آصفیہ کے زمانے میں حیدرآباد منتقل ہوئے اور یہیں قیام پسند کیا۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب سے چالیسویں پشت میں اور ۴۴ واسطوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے، اس طرح آپ کا شمار نجیب الطرفین سادات میں ہوتا ہے۔حضرت ابوالحسنات نے جن اساتذہ کرام سے ظاہری و باطنی علوم حاصل کئے ان میں حضرت حاجی امدادللہ مہاجر مکی کے خلیفہ شیخ الاسلام و المسلمین حافظ محمد انواراللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ (بانی جامعہ نظامیہ ) بھی شامل ہیں ۔ علوم ظاہری کی تحصیل و تکمیل کے بعد آپ نے علوم باطنی کی جانب توجہ مبذول کی اور نقشبندیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت شاہ سعد اللہ ؒکے خلیفہ حضرت پیر سید محمد بخاری شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے رجوع ہوکر طریقت کا فیض حاصل کیا۔قدرت نے آپ کو زبان و بیان کے ساتھ قلم کی قوت سے بھی سرفراز کیا تھا۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات اپنے موضوعات و عنوانات کے لحاظ سے سند کا درجہ رکھتی ہیں، جو قرآن و حدیث، اقوال صحابہ، تشریحات تابعین، توضیحات تبع تابعین، اجتہادات مجتہدین، عرفانیات سالکین اور نگارشات مؤرخین سے بھری ہوئی ہیں۔ زجاجۃ المصابیح کو حضرت محدث دکن کی زندگی کا شاہکار کہا جاتا ہے۔حضرت محدث دکن کو عربی، فارسی اور اُردو زبان پر یکساں عبور حاصل تھا۔ تفسیر، حدیث، فقہ اور علم تصوف پر گہری نظر تھی۔ ایک طرف آپ کی عارفانہ زندگی ترک دنیا کا مفہوم پیش کرتی ہے اور دوسری طرف آپ راہِ طریقت اور رہبرِ علوم شرعیہ میں کسی سے کم نہیں تھے۔ مختلف موضوعات پر آپ نے چھوٹی بڑی پندرہ کتابیں لکھیں اور سبھی کو قبولیت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت محدث دکن اپنی ذات والا صفات میں یگانہ وقت رہے ۔ احکام شرعیہ یا پابندی شریعت کا اہتمام بڑی التزامی حیثیت رکھتا تھا ۔ آپ کامل طورپر احکام شرعیہ کے پابند رہے اور مریدین و معتقدین کو راہ شریعت دکھاتے اور مسائل شرعیہ پر کاربند رہنے کی تبلیغ فرماتے رہے ۔ حضرت نے ۱۳۸۴ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔