سید نصیر الدین احمد
حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ یا مسدوس ماضی قریب کے ایک صاحب دل بزرگ تھے جن کے آباو اجداد حضرموت سے حیدرآباد دکن بغرض اشاعت دین تشریف لائے تھے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے مملکت آصفجاہی کی افواج بے قاعدہ سے وابستگی بھی اختیار کرلی تھی۔ حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ کا تعلق قبیلہ یا مسدوس سے تھا۔ آپ اپنے خانوادہ کے ساتھ حیدرآباد سے ہوتے ہوئے محبوب نگر تشریف لائے اور مستقر کے قدیم محلہ کہنہ پالمور میں سکونت پذیر ہوئے۔ آپ کے قبیلہ کے کچھ افراد مدور (تعلقہ کوڑنگل) جاکر وہیں آباد ہوگئے۔
حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ بامسدوس نے محبوب نگر کے محلہ کہنہ پالمور میں ڈسٹرکٹ جیل کے روبرو اپنی رہائش گاہ کی تعمیر سے قبل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ایک مسجد کی بناء ڈالی اور اکابرین محلہ کے ہمراہ اس کی تعمیر مکمل کی جو عرصۂ دراز تک مسجد ’’مومن وعروب‘‘ کہلاتی تھی اور آج کل ’’مسجد ریاض الجنہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی مسجد سے متصل انہوں نے اپنی رہائش گاہ تعمیر کی اور اپنے مکان کے آس پاس دیگر افراد خاندان اور عروب کو بسایا۔ حضرت مسدوس بن عبداللہ تاحیات اس مسجد کے متولی و امام رہے۔ آپ نے حج بیت اللہ سے بھی فراغت حاصل کی تھی۔ فقیر منش بزرگ تھے اور اپنا فارغ وقت تبلیغ و اشاعت دین میں صرف کرتے تھے۔ آپ کی ہدایت و تعلیمات سے کئی غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا تھا۔ مسجد میں ماہ رمضان المبارک میں نماز تراویح کے دوران روح پرور تسبیحات کا دلکش لحن میں ورد آپ ہی کا شروع کردہ ہے جو آج بھی جاری ہے۔ اس کے علاوہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل میں آپ اپنی مختصر جماعت کے ساتھ شرکت فرماتے جن میں قصیدہ بردہ شریف خاص لحن سے پڑھا جاتا اور نعت خواں طلباء و حضرات نعت خوانی کرتے۔ نماز تراویح کے دوران تسبیحات کا ورد اور میلاد النبی و قصیدہ بردہ شریف کی محفلیں آراستہ کرنے میں مسجد کہنہ پالمور کو ابتداء ہی سے اختصاص حاصل ہے۔ جو حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ کی دین ہے۔ چونکہ حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ ایک فرشتہ خصلت، درویش صفت اور فقیر منش بزرگ تھے۔ اس لئے ان میں دین داری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ طبیعت مائل یہ تصوف تھی اس لئے اکابرین کا صوفیانہ کلام بڑے اوب و احترام کے ساتھ سنتے اور آپ پر وجد طاری ہو جاتا۔ شاعرانہ ذوق کی بدولت خود بھی صوفیانہ شاعری فرماتے۔ آپ نے کئی نعت لکھی تھیں جن میں سے بیشتر ضائع ہوگئیں۔
اس زمانہ میں عربستان سے کئی عروب ریاست حیدرآباد آتے تھے جنہیں ریاست کے پورے اضلاع میں نظم جمعیت میں مامور کیا جاتا اور بوجہ دیانت داری اضلاع و تعلقہ جات کے سرکاری خزانوں کی حفاظت کے لئے متعین کیا جاتا۔ چنانچہ محبوب نگر میں بھی کئی عروب عربستان سے آکر بس گئے تھے اور محلہ کہنہ پالمور تو عروب کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ بیرونی عربوں کو ولایتی عرب کہا جاتا اور یہاں زیادہ عرصہ سے آباد عروب مقامی عرب کہلاتے تھے۔
حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ نے ملت اسلامیہ کی فلاح و اصلاح کی جانب خصوصی توجہ مبذول کی اور اپنے ہم عصر اور ہم محلہ ساتھیوں کے ہمراہ 1925 میں ایک فلاحی تنظیم ’’انجمن اصلاح معاشرت‘‘ کے نام سے قائم کی جس کے تحت ایک دارالمطالعہ قائم کیا گیا تھا۔ خواتین کو کپڑوں کی سلوائی مفت سکھائی جاتی تھی، اجتماعات منعقد کرکے اصلاح معاشرہ کی تلقین کی جاتی اور محتاج و بیمار افراد کی مدد کی جاتی تھی۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی جانب خصوصی توجہ دی گئی اور ان میں دینی شعور پیدا کرنے کے لئے انجمن اصلاح معاشرت کے عہدہ داران و اراکین شب و روز مصروف رہا کرتے جنہیں حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ کی رہنمائی حاصل تھی۔
’’صحبت صالح ترا صالح کند‘‘ کے مصداق حضرت مسدوس بن عبداللہؒ کے دونوں فرزندان بچپن ہی سے آپ سے استفادہ حاصل کرتے رہے اور بعد فراغت تعلیم دونوں بھی اپنے وقت کے عظیم و انشور اور مفکر خیال کئے گئے۔ بڑے فرزند احمد عبداللہ ؒ المسدوسی، ہائی اسکول دارالعلوم حیدرآباد میں محمد بہادر خاں (نواب بہادر یار جنگ) کے ہم جماعت رہے اور جامعہ عثمانیہ سے ایل ایل بی کرنے کے بعد ایک ممتاز ایڈوکیٹ کی حیثیت سے انہوں نے وکالت کی۔ نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے تاسیسی اجلاس میں شریک رہے اور بعد کو مجلس شوریٰ کے رکن بھی بنے۔ پولیس ایکشن کے بعد پاکستان منتقل ہوئے اور وہاں جامعہ اردو کراچی میں استاد قانون مقرر ہوئے، انہوں نے کئی معرکتہ الآراکتب تصنیف کیں جن میں سے ایک کتاب ’’مذاہب عالم‘‘ کو بعض جامعات نے ایم اے کے نصاب میں شریک کرلیا ہے۔ چھوٹے فرزند سالم مسدوسی کو جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں اپنے وقت کے قابل ترین اساتذہ ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب اور مولانا حافظ اسلم جیراجپوری سے شرف تلمند حاصل رہا۔ بعد میں علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی کی خاکسار تحریک سے وابستہ ہوکر سالار ادارۂ عالیہ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ولی الٰہی طرز فکر کو اپنائے ہوئے تھے اور قوم پرور خیالات کے حامل تھے۔ نظم جمعہ و جماعت کے ذریعہ ملت اسلامیہ کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی عمر بھر کوشش کرتے رہے اور اسی کوشش میں انہوں نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کی۔حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ کا پورا گھرانہ تبلیغ و اشاعت دین کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود کے لئے کارفرما رہا۔ آپ کا ہر عمل تسلیم و رضاکا گوہر نایاب تھا اور آپ رحم و کرم کے مکمل پیکر تھے۔ انتہائی سادگی پسند تھے۔ آپ کی صورت و سیرت، گفتگو و کردار اور رفتار، قال و حال، نشست و برخاست اور خلوت و جلوت سنت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل آئینہ دار تھی۔ جسے دیکھ کر غیر مسلم افراد اسلام کی طرف مائل ہوتے تھے۔
حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ کا وصال ایک موٹر کار کے حادثہ میں ہوا۔ وہ اس طرح کہ ایک روز آپ دواخانہ قدیم مستقر محبوب نگر کے پاس سڑک سے گذر رہے تھے کہ ایک موٹر کار نے آپ کو ٹکر دیدی جس کی بدولت آپ نیچے گر گئے اور شدید زخمی ہوئے گوکہ فوری طبی امداد پہنچائی گئی لیکن آپ زخموں سے جانبر نہ ہوسکے۔ اپنی وفات سے کچھ دیر قبل آپ نے اپنے قریبی ورثاء کو وصیت کی کہ خاطی ڈرائیور کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی جائے اور یہ کہا کہ انہوں نے اس ڈرائیور کو معاف کردیا۔ حضرت مسدوس بن عبداللہ ؒ نے بھی سنت نبویؐ کی اتباع میں عفو و درگذر کی جو مثال چھوڑی ہے وہ تاریخ محبوب نگر میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ 1953 کا کوئی دن تھا جس دن یہ حادثہ جانکاہ پیش آیا اور اس مرد حق نے دائمی اجل کو لبیک کہا اور کہنہ پالمور کے قدیم قبرستان میں اپنی حسن حیات میں بنائے ہوئے مقبرہ میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون آپ کا مزار مرجع خلائق ہے جہاں معتقدین اکثر جایا کرتے ہیں۔ حکومت اور وقف بورڈ کو چاہئے کہ وہ اس پسماندہ علاقہ کی طرف توجہ مبذول کریں اور اس کی ترقی کی جانب ضروری اقدام کریں۔