حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ

   

ابوزہیر حافظ سید زبیر ہاشمی نظامی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’آگاہ ہوجاؤ! اللہ تعالیٰ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے۔ اُنہی کے لئے خوشخبری ہے، دنیوی زندگی میں اور آخروی زندگی میں، اللہ تعالیٰ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (سورۂ یونس۶۲ تا ۶۴)قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اولیاء اللہ کی متعدد صفات کو بیان کیا گیا ہے۔ایسے ہی صفات سے متصف بزرگانِ دین میں قطب الاقطاب حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ کا مبارک نام آتا ہے۔ آپ ؒ کا اسم گرامی عبدالقادر، کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین تھا۔ عوام الناس میں آپ غوث اعظم (رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے مشہور ہیں۔ آپؒ علیہ نجیب الطرفین سید ہیں۔ والد ماجد حضرت ابو صالح موسیٰ (رحمۃ اللہ علیہ) تھے اور والدہ ماجدہ اُم الخیر فاطمہ (رحمۃ اللہ علیھا) تھیں۔ جنکا لقب امۃ الجبار تھا۔
آپؒ کی ولادت باسعادت کے متعلق تذکرہ نویسوں، سوانح نگاروں اور محققین نے بیان کیا ہے کہ آپ ؒکی ولادت ملک ایران کے علاقہ گیلان (جیلان) میں ۲۹؍ شعبان المعظم ۴۷۰؁ھ کو سادات حسنی و حسینی کے ایک خاندان میں ہوئی۔ اس وجہ سے آپؒ گیلانی یا جیلانی کے لقب سے معروف ہوئے اور بغداد شریف میں ۱۱ربیع الثانی ۵۶۱ھ؁ کو تقریباً ۹۱ سال کی عمر پاکر واصل بحق ہوئے۔
حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ کا مقامِ پیدائش روایات کے مطابق قصبہ گیلان بلاد فارس ہے۔ عربی میں گیلان کے ’’گ‘‘ کو بدل کر جیلان لکھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ نہ وہ عام بچوں کی طرح روتےتھے اور نہ کبھی ان کی طرف سے دودھ کے لئے بے چینی کا اظہار کرتے۔
حضرت پیران پیر ؒکی تعلیم کا آغازجیلان میں ایک مقامی مکتب سے ہوا۔ جب حضرت پیران پیر ؒکی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپؒ کی والدہ محترمہ نے آپؒ کو اس مکتب میں بٹھادیا۔ حضرت پیران پیرؒ کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب مبارک میں ہوئی۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہوگئی۔ اسکے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لئے حضرت پیران پیر ؒ۱۸ سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس سے علیحدگی اختیار کی اور بغداد کو خیر باد کہا۔ بغداد کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے۔ علم قراءت، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، علم شریعت، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو۔ آٹھ سال کی طویل مدت میں آپؒ تقریبًا تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپؒ نے ماہ ذو الحجۃ الحرام ۴۹۶ھ؁ میں ان علوم کی تکمیل پر سند حاصل کی۔حضرت پیران پیر ؒکی پوری زندگی اپنے جدِّکریم ﷺ کے فرمان: تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوْهُ النَّاسَ۔ ’’علم پڑھو اور لوگوں کو پڑھائو‘‘ سے عبارت تھی۔ پھر کچھ عرصہ بعد حضرت پیران پیر ؒنے تمام زندگی اپنے نانا جان حضور سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی اتباع اور پیروی میں گزاری۔
حضرت پیران پیر ؒنے ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس اور وعظ و ارشاد کو بڑی عمدگی کے ساتھ اختیار فرمایا۔ آپ ؒکی مجلس میں تقریبًا ستر ستر ہزار افراد کا مجمع ہوتا۔ ہفتہ میں تین بار، جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح کو وعظ فرماتے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے۔ بادشاہ، وزراء اور دیگر حاضر ہوتے۔ علماء و فقہاء کی کثرت ہوتی۔ بیک وقت چار چار سو علماء قلم دوات لے کر آپ کے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے۔
حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ حسنہ توحید، قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ، اتباع شریعت کی تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے۔حضرت پیران پیر ؒکے اقوال بہت ہی جامع و مانع ہوتے۔یہاں کچھ اقوال پیش خدمت ہے:
محبت: حضرت پیران پیر ؒنے فرمایا محبت ایک نشہ ہے جس کے ساتھ ہوش نہیں، ذکر ہے جس کے ساتھ محو نہیں۔ اضطراب ہے جس کے ساتھ سکون نہیں۔ شوق: حضرت پیران پیر ؒنے فرمایا عمدہ شوق یہ ہے کہ مشاہدہ سے وہ ملاقات سے سست نہ پڑ جائے، دیکھنے سے ساکن ہو، قرب سے ختم نہ ہو اور محبت سے زائل نہ ہو بلکہ جوں جوں ملاقات بڑھتی جائے شوق بھی بڑھتا جائے۔ توبہ: حضرت پیران پیر ؒنے فرمایا توبہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کی طرف اپنی عنایت سے دیکھے اور اس عنایت سے اپنے بندے کے دل کی طرف اشارہ کرے، اس کو خاص اپنی شفقت سے اپنی طرف قبضہ کرتے ہوئے کھینچ لے۔ ہمت: حضرت پیران پیر ؒنے فرمایا: اپنے نفس کو دنیا سے، اپنے قلب کو ارادوں سے اور اپنے سرکو موجودات سے علیحدہ کرلینا ہمت ہے۔ توکل: حضرت پیران پیر ؒسے توکل کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا کہ دل کا خدا کی طرف مشغول ہونا اور غیر خدا سے الگ ہونا توکل ہے۔ جس پر پہلے بھروسہ کرتا تھا اس کی وجہ سے اب اس کو بھول جائے اور اس کے سبب ہر غیر سے مستغنی ہوجائے۔ صبر: حضرت پیران پیر ؒنے فرمایا صبر یہ ہے کہ بلا کے ہوتے ہوئے اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب و ثبات پر قائم رہے اور اس کے کڑوے فیصلوں کو فراخ دلی کے ساتھ احکام کتاب و سنت کے مطابق مانے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(اخذ و استفادہ : خلاصہ: کتاب: تذکرے اور صحبتیں، تذکرہ غوث اعظم ؓ)
[email protected]