حضور پاک ﷺ کے عمدہ اخلاق: مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب

,

   

حضور پاک ﷺ کے عمدہ اخلاق: مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب

 

ہمارے پیغمبر نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ بچپن سے ہی بہت بااخلاق، رحمدل اور ملنسار تھے، وہ ہمیشہ سچ بولتے تھے، لوگ انہیں صادق اور امین کہتے تھے، صادق کا مطلب ہوتا ہے سچا اور امین کا مطلب ہوتا ہے امانت دار، دوستوں کو خوب نوازتے تھے،دشمنوں کے ساتھ بھی دوستانہ رویہ رکھتے تھے، اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کرنے جاتے، ضرورت مند کی مدد کرتے، کسی سے گفتگو کرتے تو بہت دھیان سے اس کی بات سنتے، اور جب تک بات مکمل نہ ہوجائے آپﷺ کچھ نہیں کہتے تھے، پوری بات سننے کے بعد پھر آپﷺ اپنی بات کہتے۔کسی سے ملتے وقت ہمیشہ پہلے خود سلام مصافحہ فرماتے کوئی شخص جھک کر آپﷺ کے کان میں کوئی بات کہتا تو اس وقت تک آپﷺ اس کی طرف سے رخ نہیں پھیرتے تھے جب تک کہ وہ اپنی بات پوری نہ کرے، مصافحہ میں بھی یہی معمول تھا کہ جب کسی سے ہاتھ ملاتے تھے تو اس وقت تک اپنا ہاتھ واپس نہیں کھینچتے تھے جب تک کہ وہ خود اپنا ہاتھ واپس نہ کھینچ لے، اکثر غلام اور باندیاں کسی برتن میں پانی لیکر آتے کہ آپ ﷺاپنا مبارک ہاتھ اس میں ڈال دیں تو وہ پانی برکت والا ہوجائے، سخت سردی کے دنوں میں بھی صبح کےوقت لوگ آتے تب بھی آپ ﷺمنع نہیں فرماتے تھے۔

آپ ﷺ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ تجارت کرتے تھے، آپ ﷺ کے اخلاق اور ملنساری کی وجہ سے تجارت میں بہت نفع ہوتا تھا، آپ ﷺ اپنے خاندان والوں سے بڑی محبت سے پیش آتے تھے، کسی کی دل آزاری نہ کرتے بلکہ اگر کوئی غمگین یا اداس ہوتا تو اس کی دلجوئی کرتے اور اُسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے، اس کے علاوہ آپﷺ مشرکین وکافروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرتے، جنگ کیلئے اگر کسی لشکر کو آپﷺ روانہ کرتے تو یہ تاکید ضرور کرتے تھےکہ جنگ میں دشمنوں کے بچوں ، عورتوں، بیماروں اور بوڑھوں پررحم کرنا انہیں قتل نہ کرنا ، فتح مکہ کے وقت آپ ﷺنے تمام دشمنوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا۔
آپ ﷺ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کوہٹاتے اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیتے، ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ’’ اے اللہ کے رسولﷺ آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ کون سا ہے؟‘‘ آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اور فرمایا کہ’’ وہ جب میں طائف میں گیا تھا۔ وہ دن میری زندگی کا سب سے تکلیف دہ دن تھا، میں جس قبیلے کے سردار کے پاس جاتا وہ میری دعوت کو قبول نہ کرتا اور مجھے دھکے دے کر نکال دیتا‘‘ طائف کا وہ واقعہ کہ جب آپ ﷺ دین کی دعوت کیلئے گئے تھے تو وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ کا مذاق اڑایا اور نوجوان بچے اور لڑکے آپ ﷺ پر پتھر مارتے تھے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی جوتیاں خون سے بھر گئی تھیں، مگر آپ ﷺ نے ان کو بددعا نہ دی بلکہ ان کے حق میں رحمت کی دعا کی۔
آپ ﷺ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کرتے تھے، راتوں کو اٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ’’ آنحضرت ﷺ نےکبھی رات کی عبادت چھوڑی نہیں ، اگر کبھی طبیعت ناساز ہوتی یا تھکن ہوتی تو نماز بیٹھ کر ادا کرتے تھے‘‘ مسجدنبوی میں جگہ بہت کم ہوتی تھی جو لوگ پہلے سے آکر بیٹھ جاتے تھے ان کے بعد جگہ باقی نہیں رہتی تھی، ایسے موقع پر اگر کوئی آجاتا تو اس کیلئے آپ ﷺخود اپنی چادر مبارک بچھا دیتے تھے، آپ ﷺ کے اخلاق وعادات میں جو وصف سب سے زیادہ نمایاں اور جس کا اثر ہر موقع پر نظر آتا تھا وہ ایثار تھا۔
اولاد سے آپ ﷺ کو بے انتہا محبت تھی اور ان میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا عزیز اور محبوب تھیں جب وہ آتیں تو فرط محبت سے کھڑے ہوجاتے پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی غربت اور تنگدستی کا یہ حال تھا کہ گھر میں کوئی خادمہ نہ تھی خود چکی پیستیں، خود ہی پانی کی مشک بھرتیں، چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے تھے، ایک مرتبہ آپ ﷺ کے پاس کچھ کنیزیں اور خدام تھے جو کہ کسی غزوہ میں سے آپ ﷺ کے پاس آئے تھے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر ملی تووہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور چاہا کہ آپ ﷺ سے ایک کنیز لے لیں، مگر انہیں حیاء آگئی اور وہ واپس چلی آئیں اس واقعے کا علم آپ ﷺ کو ہوا تو انہوں نے کہا کہ’’ سب کنیزیں اور خدام تو تقسیم ہوگئے ہیں اگر پہلے علم ہوتا تو تمہیں دے دیتا، ‘‘ پھر آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکو کہا کہ ’’بیٹی رات میں سوتے وقت ۳۳ ؍مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳؍مرتبہ الحمدللہ اور ۳۴ ؍مرتبہ اللہ اکبر پڑھ کر سویا کرو اس سے تمہاری دن بھر کی تھکن دور ہوجائے گی‘‘۔
اس واقعہ میں ایثار کا پہلو تو ہے ہی ساتھ ہی یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا انداز تربیت کتنا پیارا تھا، ایک طرف بیٹی سے اس قدر محبت ہے اور دوسری طرف انہیں عیش وعشرت سے دور رکھ کر محنت مشقت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تعلیم فرمارہے ہیں، اللہ پاک کا ذکر سکھارہے ہیں، اور ان کو آخرت کیلئے اعمال کا ذخیرہ اکٹھا کرنے کا درس دے رہے ہیں۔
حضور اکرم ﷺ بڑے سخی اور فیاض تھے، غریبوں، مسکینوں، رشتہ داروں اور ضرورت مندوں کو خوب نوازتے تھے، ایک مرتبہ آپﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اس نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے پاس ڈھیر ساری بکریاں ہیں اس نے آپﷺ سے چند بکریاں مانگیں آپ ﷺ نے وہ ساری بکریاں اس شخص کو دے دیں، اس شخص نے اپنے قبیلے میں جاکر اس سخاوت کی خوب تعریف کی، اور قبیلے والوں سے کہا کہ’’ تم سب اسلام قبول کرلو، محمدﷺ اتنے سخی ہیںکہ مفلس ہوجانے کا خوف نہیں رکھتے،‘‘ آپ ﷺ کھانے پینے کی چیزوں میں بھی دوسروں کو شریک فرماتے تھے، کھانے کی کوئی معمولی یا تھوڑی سی چیز ہوتی تو اس میں سے بھی دوسروں کوحصہ عنایت فرماتے تھے، ایک مرتبہ آپﷺ نے ایک بکری خریدی، پھر اسے ذبح کروایا، اور اس کی کلیجی بھنوائی، جب کلیجی بھن کر تیار ہوگئی تو جو لوگ موجود تھے ان کو اس میں سے کھلایا اور جو موجود نہیں تھے ان کا حصہ الگ کرکے محفوظ کرلیا۔
آپ ﷺ کی سخاوت اس درجے کی تھی کی آپ ﷺکے پاس جو کچھ آتا اسے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کئے بغیر آپ کو چین نہیں آتا تھا، ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورا کرم ﷺ گھر تشریف لائے، کہ آپ کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ’’اللہ کے رسول خیریت تو ہے، آپ کے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا’’ کل جو سات دینار آئے تھے وہ ابھی خرچ نہیں ہوئے اور شام ہوگئی ہے‘‘۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ کہیں جارہا تھا‘‘ اتنے میں آپ ﷺ نے فرمایا’’ ابوذر! اگر احد پہاڑ میرے لئے سونے کا بنادیا جائے تو میں کبھی نہیں پسند کروں گا کہ تین رات گذر جانے کے بعد میرے پاس ایک دینار بھی باقی رہے،‘‘ یعنی تین دن میں سب کا سب خرچ کردونگا ۔ اللہ اکبر ! یہ کیسی سخاوت ہے!
حضور اکرم ﷺ میں حیا تھی، آپ کو قریب سے دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ شرم وحیا کا اثر آپﷺ کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا،آپﷺ نے کبھی کسی کے ساتھ بدزبانی نہیں کی، کسی کو برا بھلا نہیں کہا ، کسی کا دل نہیں دکھایا، صرف مسکراتے تھے، قہقہہ لگا کر ہنسنے کی عادت آپ ﷺکو نہیں تھی، *یہ حضور اکرم ﷺ کے پیارے اخلاق ہیں، جن کو اپنے اندر پید اکرنے کی کوشش ہر مسلمان کو کرنی چاہئے، پاکیزہ اور عمدہ اخلاق کے ملنے کی دعا بھی اللہ پاک سے کرنی چاہئے۔

حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم
(سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

پیشکش: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ