صوفی شاہ محمد سلطان شطاری قادری
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں (سورۃ البقرہ) اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جبرئیل ؑنے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے ۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا کیونکہ وہ باطنی عبادت ہے جس کا ظاہر سے کوئی تعلق نہیں اور غیر کا اس میں قطعاً کوئی حصہ نہیں اور اس کی جزا بے حد و حساب ہے ۔
حضرت جنید بغدادی ؒنے فرمایاکہ روزہ آدھی طریقت ہے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرما تے ہیں کہ میںنے بعض مشائخ کو دیکھا کہ ہمیشہ روزے رکھتے تھے اور بعض وہ تھے کہ سوائے ماہ رمضان کے کبھی روزہ نہیں رکھتے تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ)حضور اکرم ﷺ گھر تشریف لائے تو ہم نے کہا کہ آپ ؐ کے لئے کھجورکا حلوہ بنایا ہے ، حضور ؐنے فرمایا میرا ارادہ تو روزہ رکھنے کا تھا۔ مگر خیر تم (حلوہ) لے آؤ میں اس کے بدلے پھر کسی دن روزہ رکھ لوں گا۔
روزہ در حقیقت نفس کو روکنے کا نام ہے، اور طریقت کے جملہ اسرار و رموز اسی میں مضمر ہیں۔ اور روزہ میں کمترین درجہ بھوک کا ہے (یعنی روزے داروں میں کمترین درجہ ان لوگوں کا ہے جو محض بھوکا رہنے کو روزہ رکھنا تصور کرتے ہیں )۔
احکام و شرائط ِ روزہ : پس روزہ کی فرضیت ایک ماہ کے لئے ہے اور یہ حکم ہر بالغ و عاقل مسلمان پر عائد ہوتا ہے جو صحتمند اور مقیم ہو اور اس ایک ماہ کی ابتدا ماہ رمضان کا نیا چاند دیکھنے سے ہوتی ہے ۔ روزہ رکھنے کے لیے اور بھی متعدد شرأط ہیں۔ (جن کی پابندی کے بغیر روزہ روزہ نہیں کہلاتا ) مثلاً یہ کہ پیٹ کو کھانے اور پینے سے روکو تو چاہیے کہ آنکھ کو نظارۂ حرام اور نظر ِشہوت سے بچائے رکھو، تن کو دنیا کی غلامی اور شریعت کی خلاف ورزی سے محفو رکھو کہ روزہ تو در حقیقت اسی صورت میں صحیح ہوگا۔کیونکہ خود حضور نے فرمایا ہے کہ جب تو روزہ رکھے تو تیری آنکھ ، کان اور زبان کا بھی روزہ ہونا چاہیے نیز فرمایا کہ بہت سے روزہ دار وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں بھوک اور پیاس کے سوا روزے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا (یعنی صرف کھانا پینا چھوڑ دینے سے روزہ نہیں ہوجاتا) پس لازم ہے کہ روزہ دار ان تمام حو اس کو پوری طرح قابو میں رکھے تاکہ مخالفتِ الٰہی سے موافقتِ حق کے درجے تک پہنچ جائے کہ جبھی وہ روزہ دار کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے ورنہ محض کھانا پینا ترک کرکے روزہ دار ہونے کا دعویٰ تو بچے اور بڑی بوڑھیاں بھی کرتی ہیں۔