حلال اشیاء پر پابندییو پی حکومت کا نیا شوشہ

   

رام پنیانی
بی جے پی فرقہ پرستی کیلئے بدنام ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، جہاں تک بی جے پی کے تخریبی اور فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا سوال ہے اس ایجنڈہ پر اگر کہیں بطورِ خاص استعمال ہوتا ہے تو وہ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اُتر پردیش ہے۔ یو پی کی یوگی حکومت وقفہ وقفہ سے ایسے اقدامات کرتی ہے جو حقیقت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے انتہائی نقصاندہ ہیں۔ اب اُتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے ایک نیا تخریبی ایجنڈہ اپنایا ہے، حکومت اُتر پردیش تصدیق شدہ حلال خوردنی اشیاء ( کھانے پینے کی اشیاء) کی فروخت پر پابندی عائد کررہی ہے۔ یوگی حکومت نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ریاست میں ایسی اشیاء پر جنہیں حلال ہیں کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے ان کی فروخت پر پابندی عائد کی جائے گی، اس ضمن میں وہ عجیب و غریب منطق پیش کرتی ہے۔ آگے کی سطور میں ہم اس کی منطق کے بارے میں آپ کو بتائیں گے۔ آپ ذرہ غور کیجئے کہ یہ ایک ایسی ریاست میں ہورہا ہے جس نے ملک کے سب سے زیادہ وزرائے اعظم دیئے ہیں، جہاں ایودھیا اور کاشی جیسے اہم مذہبی مقامات واقع ہیں اور جنہیں ہندو بہت مقدس مانتے ہیں۔ حکومت کے مذکورہ منصوبہ سے ایسا لگتا ہے کہ اس نے 2024 کے عام انتخابات سے قبل ایک نیا مسئلہ چھیڑا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایک ایسے موضوع کو جو کسی بھی طرح مسئلہ نہیں ہے ایک مسئلہ بناکر اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اُٹھایا جائے۔ جہاں تک رائے دہندوں کا سوال ہے وہ معاشی سُست روی اور بیروزگاری کے ناقص ریکارڈ کے باعث پریشان ہوکر دور ہٹنا چاہتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں یو پی میں متحرک کرنے کیلئے مذہبی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے جسے مسئلوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس کی شروعات کئی دہوں قبل رام مندر کے مسئلہ سے ہوئی تھی لیکن اب یہ سیاست کاشی وشواناتھ مندر مسئلہ میں تبدیل ہورہی ہے۔ گوشت اور گوشت کا استعمال باقاعدگی سے سرخیوں میں آرہا ہے جبکہ کچھ لوگ اس بات کو نوٹ کرتے ہیں کہ کسی طرح ریاست اُتر پردیش آوارہ مویشیوں کے مرکز میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ان آوارہ مویشیوں کو سڑکو پر گھومنے پھرنے کی اجازت ہے۔ سڑکوں پر ان آوارہ مویشیوں کے گھومنے پھرنے سے عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور راستے سے گذرنے والی گاڑیوں اور اس میں سفر کرنے والے لوگوں کیلئے حادثات کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ گاڑیاں ان جانوروں کے باعث حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف چھاپہ مار کر کسانوں کو معاشی نقصان پہنچاتے ہیں۔مویشیوں خاص کر گائیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کھیتوں کو تباہ کردیتی ہیں۔ جہاں تک آوارہ مویشیوں کا سوال ہے عوام ان جانوروں سے نالاں ہیں ایک تو یہ کھڑی فصل کی تباہی کا باعث بنتے ہیں دوسرے گائے کا گوشت کھانے کے الزامات کے نتیجہ میں معاشرہ میں نفرت و عداوت یہاں تک کہ قتل و غارت گری کا بھی باعث بنتے ہیں۔ ذبیحہ گاؤ اور بڑے جانور کا گوشت کھانے کے مسئلہ پر اُتر پردیش میں بے شمار لوگوں کو اپنی زندگیوں سے محروم ہونا پڑا، اس ضمن میں محمد اخلاق، حافظ جنید اور راکبر خان کے بشمول دوسرے کئی مسلمانوں کے قتل کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں اور قتل کے ان واقعات نے ان کے اپنے خاندانوں کو صدمہ سے دوچار کردیا لیکن حکمرانی کرنے والوں کی گوشت کا مسئلہ اُٹھانے سے متعلق بھوک کم نہیں ہوئی بلکہ گذرتے وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ اُتر پردیش میں جب بھی فرقہ وارانہ سیاست کو اُٹھایا گیا اس کا خمیازہ ریاست کے عوام کو بھگتنا پڑا۔ مثال کے طور پر یو پی میں جب خود ساختہ لو جہاد کا نعرہ بلند کیا گیا تو آپ اور ہم تمام نے دیکھا کہ 2013 میں کس طرح مظفر نگر میں تشدد برپا ہوا، اور بے شمار بے قصوروں کی جانیں گئیں۔ دوسری طرف یوگی آدتیہ ناتھ عہدہ چیف منسٹری پر 2017 سے فائز ہیں اور تب سے ریاست میں اس طرح کے مسائل میں صرف اضافہ ہوا ہے۔ اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان اشتعال انگیز بیانات و تقاریر کے نتیجہ میں ماحول زہرآلود بھی ہوا۔ یوگی حکومت نے گائے کے گوشت کی دکانات پر دھاوے کئے جس نے مسلمانوں اور دلتوں کے ایک طبقہ کی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس کے علاوہ یوگی حکومت میں بلڈوزر سے انصاف کروانے کے نتیجہ میں پہلے ہی سے کمزور اور مظلوم طبقات بالخصوص مذہبی اقلیتوں پر بھیانک اثرات مرتب ہوئے ( یوگی حکومت پر بار بار یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے بلڈوزر کا استعمال کرتی ہے جبکہ کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جہاں بلڈوزر استعمال کرنے کی ضرورت تھی چونکہ معاملہ غیر مسلم کا تھا ایسے میں وہاں بلڈوزر نہیں چلائے گئے باالفاظ دیگر یو پی میں بلڈوزر کا بھی چنندہ طور پر استعمال ہورہا ہے اور چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے)۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کھانے پینے کی جن اشیاء کیلئے حلال سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے ہیں ان پر پابندی کا اطلاق صرف مقامی مارکٹ پر ہوگا لیکن جو اشیاء اکسپورٹ کی جاتی ہیں انہیں اس پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے کیونکہ جن ملکوں کو گوشت اکسپورٹ کیا جاتا ہے وہاں گوشت کے استعمال کیلئے حلال سرٹیفکیٹ کا ہونا ضروری ہے۔ جہاں تک حلال کا سوال ہے عربی میں اس کے معنیٰ اسلامی تعلیمات کے مطابق جن چیزوں کے کھانے ، پینے یا استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے وہ حلال ہے۔ گوشت اور گوشت کی اشیاء کے بارے میں جو حلال سرٹیفکیٹ ( تصدیق نامے ) جاری کئے جاتے ہیں اس کے ذریعہ یہ گیارنٹی دی جاتی ہے کہ جس جانور ( گائے، بکرے اور مرغی ) کا گوشت آپ کھارہے ہیں انہیں اسلامی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں ملک گیر سطح پر کوئی ایسا قانون نہیں جو کہتا ہو کہ حلال گوشت فروخت کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ کسی بھی فرد کی ترجیحات پر چھوڑ دیا گیا ہے یعنی وہ اپنی پسند کے مطابق کھاسکتا ہے ، پی سکتا ہے۔ایسا گوشت جو اکسپورٹ ہو عام طور پر حلال سرٹیفکیٹ سے متعلق مناسب تنقیح کا متقاضی ہوتا ہے۔ جہاں تک حلال تجارت کا سوال ہے معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور ہندوستانیوں کو حلال اکسپورٹس کے فروغ سے بہت زیادہ فائدہ ہوا، اور اس کی اہمیت کے حامل تجارتی شراکت داروں میں او آئی سی کے رکن ممالک اور ساؤتھ ۔ ایسٹ ایشین نیشنس کے رکن ممالک شامل ہیں۔
بہر حال حکومت اُتر پردیش نے یہ کہتے ہوئے حلال خوردنی اشیاء پر پابندی کو حق بجانب قرار دیا ہے کہ مالی فوائد حاصل کرنے کی خاطر بعض کمپنیوں نے جعلی حلال سرٹیفکیٹس جاری کئے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرح کی حرکتوں کے ذریعہ ان کمپنیوں نے مروجہ اُصول و ضوابط کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے لیکن کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اُصول و ضوابط کی پابندی کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حلال سرٹیفکیٹس کی اجرائی کے معاملہ میں جعلی سرٹیفکیٹس جاری کئے جانے کے الزامات عائد کرنے کو بھی مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ ان کمپنیوں نے سماجی عداوت کو فروغ دینے کا کام کیا ہے، مفاد عامہ کو نقصان پہنچایا ہے۔